• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے بچو، یہ کہاوت ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب کسی شخص کو بھاری نقصان ہونے کے بعد تھوڑی بہت امداد کا سہارا مل جائے۔چند سال قبل بارش نے شہر میں بڑی تباہی مچائی تھی، خاص طور سے نالے کے ساتھ بنی ہوئی کچی بستی اس سےخاصی متاثر ہوئی تھی۔ یہ بستی چنددرجن جھونپڑیوں پر مشتمل تھی، جس میں غریب اور مفلوک الحال مزدور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ انتہائی تنگ دستی کے ساتھ گزر بسر کرتے تھے۔

بستی کی جھونپڑیاں بانس ،سرکنڈوں اور ٹین کی چھتوں اور مٹی کی دیواروں سے بنی ہوئی تھیں۔وہ تیز بارش اور طوفانی ہوا کے جھکڑوں کا مقابلہ نہ کرسکیں، ان میں سے کئی مکانوں کی دیواریں زمیں بوس ہوگئیں جب کہ مکانوں کی چھتیں اڑ گئیں جس کی وجہ سے مکینوں کو اپنے بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے تیز بارش میں بھیگنا پڑا۔ دوسرے روز جب بارش تھمی تو لوگوں نے اپنے گھراور مال و اسباب کا جائزہ لیا۔ ان غریبوں کو بے پناہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا تھا، گھروں کی بربادی کے علاوہ مال و اسباب کو بھی خاصا نقصان پہنچا تھا۔ بستی کے قریب ایک امیر شخص کی حویلی تھی جو بہت رحم دل اور خداترس تھا۔

وہ شخص اپنے ملازمین کے ساتھ گھٹنے گھٹنے پانی میں چلتا ہوا مذکورہ بستی کا جائزہ لینے کے لیے پہنچا۔ یہاں اس نے تباہی و بربادی کے دردناک مناظر دیکھے۔ اس کی آمد کا سن کر بستی کے تمام لوگ اس کےگرد اکٹھا ہوگئے اور اسے اپنے نقصانات کے بارے میں بتانے لگے۔اس شخص نے سب کی بات توجہ سے سنی اور ان سے ہمدردی کا اظہار کیا ۔ اس کے بعد اس نے ان لوگوں کو اپنی حویلی میں بلایا اور تمام متاثرہ خاندانوں کو اتنی رقم دی کہ اپنے گھروں کی مرمت کرالیں تاکہ ان کے اہل خانہ کے سر چھپانے کا آسرا ہوجائے۔ 

مصیبت زدہ لوگوں نے رحم دل شخص سے امداد کی رقم وصول کرنے کے بعد اسے دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ ’’آپ نے ہم تباہ حال لوگوں کی اشک شوئی کے لیے جو کچھ بھی کیا ہے،ہم آپ کی دراز ی عمر اور ترقی و خوش حالی کے لیے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں، اس کا اجر آپ کو اللہ تعالیٰ دے گا۔ ان میں سے ایک بوڑھے شخص نے اسے دعائیں دیتے ہوئے کہا کہ ’’ خدا آپ کو ہمیشہ شادو آباد رکھے، آپ کی دی ہوئی رقم سے ہمارے مسئلے کافی حد تک حل ہوجائیں گے‘‘۔ ’’ویسے بھی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ‘‘ بہت ہے۔

تازہ ترین