• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمودصاحب سوشل میڈیا پر کبھی طالب علموں کے ہیرو تو کبھی وِلن بن جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران جب اُنہوں نے اِس وبا کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے مدِ نظر اسکول بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیاتو طالب علموں نے اُنہیں سوشل میڈیا پر پیار سے جانی بلانا شروع کردیا۔اسی طرح جب حالات قدرے بہتر ہوئے اور تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا گیا تو اِنہی شفقت محمود صاحب کے حوالےسے طالب علموں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔

کورونا وبا کی ہر لمحہ تبدیل ہوتی صورتحال کے پیشِ نظر اسکول کھولنے یا بند کرنے کا اُس وقت اِتنا بڑا مسئلہ نہیں بنا جتنا بڑا مسئلہ امتحانات کے معاملے میں اب بن چکا ہے۔پچھلے سال اِنہی دِنوںجب کورونا وائرس کی پہلی لہر اپنے عروج پر تھی تو امتحانات ملتوی کر دیے گئے اور بچوں کوامتحانات لئے بغیر ہی پاس کر دیا گیا۔ پاکستان ایسا کرنے والا واحد ملک نہیں تھا بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے یہی طریقۂ کار اپنایا۔ بالخصوص برطانیہ میں بھی ایسا ہی ہوا جہاں پاکستان کی طرحOاورAلیول کے امتحانات نہیں لئے گئے اور بچوں کو اندازے سے نمبر دے کر پاس کر دیا گیا۔ اِس عمل میں کچھ مسائل بھی سامنے آئے جس کی وجہ یہ تھی کہ اساتذہ کی طرف سے تجویز کئے گئے نمبر ہی طلبہ کو دیے گئے۔ بورڈ کے امتحانات میں بھی اچھے نمبروں کے حصول کے لئے دوبارہ امتحان میں بیٹھنے والے طلبہ کو بھی کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے اُس وقت بھی اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اگرچہ یہ بہترین حل نہیں ہے لیکن اِس وقت یہی سب سے بہتر حل ہے۔

اِس سال امتحانات سے بہت پہلے ہی حکومت نے مؤقف اپنایا تھا کہ لگاتار دو سال امتحانات کے بغیر بچوں کو پاس نہیں کیا جائے گا۔ یہ مؤقف اِس قدر سختی سے پیش کیا گیا کہ جیسے یہ کوئی قانونِ قدرت ہے، جسے تبدیل نہیں کیا جا سکتایا جس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔ جبکہ اِسی دوران خطے کے دیگر ممالک نے کورونا وبا کے پھیلائو کے پیش نظر اِس سال بھی اپنے طلبہ کو بغیر امتحان لئے پاس کرنے کا فیصلہ کیا حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی O اور A لیول کے طلبہ کے لئے یہی فیصلہ کیا گیا جبکہ پاکستان ابھی کوروناوائرس کی دوسری لہر سے نبرد آزما تھا کہ حکومت نے امتحانات لینے کا فیصلہ سنا دیا تھا۔حکومت نے اِس خوش فہمی میں رہتے ہوئے کہ ہم نے کورونا کو شکست دے دی ہے، امتحانات لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کی اِسی خوش فہمی کی وجہ سے آج ہمارے طلبہ پریشانی کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے امتحانات کا فیصلہ اِس وبا کی نوعیت کو جانے بغیر قبل از وقت کر دیا گیا تھا۔

آخر کار پاکستان میں کورونا وائرس کی بگڑتی صورتحال کے پیشِ نظربورڈ کے امتحانات حکومت کو ملتوی کرنا پڑے لیکن کیمبرج کے امتحانات چند دِنوں کی تاخیر سے طے پا گئے۔ بدقسمتی سے اِن امتحانات سے کچھ ہفتے پہلے ہی کورونا وائرس کی تیسری لہر پاکستان میں زور پکڑ گئی۔ بار بار بچوں، والدین اور اسکول انتظامیہ کی طرف سے اِس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ ایسی وبائی صورتحال میں امتحانات نہیں ہو سکتے مگر اس کے باوجود حکومت مسلسل اپنے فیصلے پر قائم رہی۔ آپ کسی بھی باشعور انسان سے پوچھیں کہ اِس طرح لاکھوں بچے اکھٹے کر کے امتحان کرانے سے ایس او پیز پر عمل ہو پائے گا؟ تو یقیناً اُس کا جواب نفی میں ہوگا۔ حکومت بضد تھی کہ امتحانات کے دوران ایس او پیز کو یقینی بنایا جائے گا مگر امتحانات ابھی شروع ہی ہوئے تھے کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی اور کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسوں کے پیشِ نظر امتحانات ملتوی کرنا پڑےسوائے Aلیول کے اُن طالب علموں کے جن کے لئے ابھی امتحان دینا مجبوری تھا۔ اب باقی طالب علم یہ پوچھ رہے ہیں کہ برطانیہ اور خطے کے دیگر ممالک کی طرح ہمیں کیوں نہیں پاس کیا جا رہا؟اِس سارے معاملے میں کافی بد مزگی بھی ہو چکی ہے۔ طلبہ کے لئے مافیا کا لفظ بھی استعمال کیا جا چکا ہے تو دوسری طرف طلبہ اور اُن کے حمایتیوں کی طرف سے بھی خراب زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک ہے اور سب سے بڑی افسوس کی بات یہ ہے کہ اِس سارے معاملے مین طلبہ کے مستقبل کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

عجیب بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں یہ بات کی ہی نہیں گئی کہ ہم نے بچوں کے امتحان لینے ہیں۔ سب نے کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسوں اور ویکسی نیشن کی شرح کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بہت پہلے ہی یہ فیصلے کر لئے تھے کہ اِس سال بچوں کے امتحانات کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ بچوں کو کورونا کے امتحان کے ہوتے ہوئے کسی اور امتحان میں ڈالنا یا امتحان در امتحان کی کیفیت پیدا کرنا کسی طور درست نہیں ہے۔ برطانوی حکومت کی ایک رپورٹ کے مطابق تمام طلبہ کے پاس مساوی وسائل موجود نہیں ہیں۔کچھ بچوں کے پاس ڈیجیٹل وسائل کم ہیں اور چونکہ کورونا وائرس کے اِس دور کے دوران زیادہ تر کلاسیں آن لائن رہی ہیں اِس لئےاِس بات کو بھی مدِ نظر رکھا گیا ہے کہ وہ غریب بچے جن کے پاس موبائل فون، کمپیوٹر، انٹر نیٹ یا پرائیویٹ ٹیوشن کی سہولت موجود نہیں ہے ، اِس وقت امتحان لینا اُن کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔ غریب بچوں کے ساتھ ناانصافی کو اُن کی نالائقی کا رنگ دینے کی جو کوشش کی جا رہی ہے، اِس ضمن میں ہمیں بھی یہ دیکھنا چاہئے کہ امتحانات کے حوالے سے احتجاج کرنے والے بچوں کے پاس کیا واقعی یہ سہولیات موجود ہیں یا نہیں؟

یہ طلبہ ہمارےبچے ہیں، دنیا میں اِس وقت جو نے یقینی کی صورتحال ہے اُس کے پیش نظر ہماری اولین ترجیح اُن کی صحت اور سہولت ہونی چاہئے۔ کورونا کے امتحان سے نبردآزما بچوں کے امتحان لے کر ہم کیا حاصل کر لیں گے؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اِس وقت بچوں کے امتحان لے کر ہم اُن کے ساتھ زیادتی کریں گے کیونکہ اِس وقت وہ جس ذہنی دبائوکا شکار ہیں اُس کے نتیجے میں وہ یا تو فیل ہوں گے یا بہت ہی کم نمبر لے کر پاس ہو سکیں گے۔

تازہ ترین