قومی اسپورٹس پالیسی منظر عام پر آنے اور حکومت کی مظوری سے قبل ہی شور شرابے کا شکار ہوگئی ہے بین الصوبائی رابطے کی وفاقی وزارت اور پاکستان اسپورٹس بورڈ کے بعض اعلی افسران نے کھیلوں کی آنے والی نئی پالیسی کو اس کی حتمی منظوری سے قبل ہی اپنے نرغے میں لیتے ہوئے متنازع بنا نا شروع کردیا، اس پالیسی میں یہ افسران ان شقوں کو بھی شامل کرانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے کھیلوں کی فیڈریشن میں حکومتی مداخلت کا تاثر جنم لے گا۔
اس عمل سے عالمی فیڈریشن کو بھی اعتراضات کا موقع مل سکتا ہے،نئی اسپورٹس پالیسی میں مستقل الیکشن کمیشن کے قیام اور اسی کی مدد سے ہر فیڈریشن کے انتخابات کرانے کی تجویز بھی دی گئی جسے کھیلوں کی فیڈریشن نے کھلم کھلا حکومت کی مداخلت قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے عالمی فیڈریشن کی کاروائی کا امکان بڑھ جائے گا۔
بین الصوبائی رابطے کی وزارت نے فیڈریشنوں کی تجاویز کو پالیسی کا حصہ بنانے کے لئےپاکستان ٹینس فیڈریشن، پاکستان اسکواش اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ساتھ مشاورت کی ہے،کئی فیڈریشنوں کا موقف ہے کہ عالمی فیڈریشن کے چارٹر میں حکومت کے حوالے سے دی گئی بعض شقوں کے خلاف جانے کی صورت میں عالمی فیڈریشن کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری آصف باجوہ نے کہ پی ایچ ایف انٹر نیشنل ہاکی فیڈریشن اور آئی او سی کے تحت کام کرتی ہے،پالیسی میں دونوں چارٹر کے خلاف کسی شق کوتسلیم نہیں کریں گے، منتخب عہدیداروں کےدوٹرم پرپی ایچ ایف کو اعتراض نہیں ہے،کچھ شقوں پرپی ایچ ایف کےتحفظات سے وزارت کو آگاہ کیا جائے گا، پاکستان سافٹ بال، نیٹ بال، تھرو بال فیدریشن کے حکام بھی اس صورت ھال سے خوش نہیں ہیں۔
تاہم پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ترجمان نے اس تاثر کو غلط قرار دیا ہے کہ آزاد الیکشن کمیشن کا قیام سے حکومت کی مداخلت بڑھے گی، الیکشن کمیشن کا پی ایس بی یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا،ا س حوالے سے کھیلوں کی مختلف فیڈریشنوں کا موقف ہے کہ وزارت برائے بین الصوبائی رابطہ اور پاکستان اسپورٹس بورڈ قومی کھیلوں کے فیڈریشنوں کے انتخابات کے انعقاد کے لئے اختیارات پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس کو آزاد الیکشن کمیشن کا نام دیا جارہا ہے،اس پالیسی کے حوالے سے بین الصوبائی رابطے کی وزارت اور کھیلوں کی فیڈریشنوں کے ذمے داروں کے ساتھ ساتھ ملک کی سب اہم کھیلوں کی ایسوسی ایشن پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن کے درمیان لکیر کھینچ گئی ہے،جس سے مستقبل میں بھی اچھے نتائج سامنے آنے کے امکانات نہیں ہیں۔
ماضی میں 2001اور2005کی اسپورٹس پالیسی پر حکومت کی جانب سے کوئی عمل نہیں کیا گیا اور اس پالیسی کو صرف عہدے داروں کی مدت تک محدود کر کے تنازع جاری رکھا گیا،نچلی سطح پر کسی شہر ، ڈسٹرکت اور تحصیل میں اسپورٹس افسروں کی تقرری نہیں کی گئی، کھلاریوں کے معاشی بحران کو حل کرنے کے لئے کوئی اقدامات سامنے نہیں لائے گئے،آئی او سی اور عالمی فیڈریشنوں کے چارٹرڈ کے مطابق کسی بھی فیڈریشن میں مار کیٹنگ اور میڈیا کے شعبے کے قیام کی جانب توجہ نہیں دی گئی،کھلاڑیوں اور کوچز کی ٹریننگ اور سہولت کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،عہدے داروں کی مدت کو لے کر ملک میں سرکاری پی او اے قائم کی گئی پھر عالمی دبائو پر معاملے کو پی او اے کے ساتھ حل کیا گیا،پاکستان جمناسٹک فیڈریشن کے صدر احمد علی راجپوت نے اس حوالے سے کہا کہ حکومت اور خاص کر پی ایس بی کی جانب سے ماضی میں متوازی فیڈریشن بنائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم، صدر اور منتخب نمائندوں کے لئے عمر یا کوئی عہدے کی کوئی ٹرم نہیں ہے مگر کھیلوں میں اس صورت حال کو پیدا کر کے کیا حاصل کیا جانا ہے، اس حوالے سےسکریٹری آئی پی سی محسن مشتاق کا کہنا ہے کہ ا لیکشن کمیشن تمام قومی اسپورٹس فیڈریشنوں کے انتخابات کو آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف انداز میں کرانے کا ذمہ دار ہوگا یہ کھیلوں کی نئی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ الیکشن کمیشن آزاد ہوگا جس کی سربراہی سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کی نگرانی میں ہوگی۔ اس میں دو آزاد ممبران بھی شامل ہوں گے جو ہر فیڈریشن کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ہوں گے۔
پی ایس بی ہیڈ کوارٹرز میں کمیشن کی مدد کے لئے ایک آزاد معاون عملے کا تقرر کیا جائے گا، فیڈریشنوں کے انتخابات کرانے کے لئے اس طرح کا کمیشن لازمی تھا،چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ ہو ہم پی ایس بی سے وابستہ تمام اسپورٹس فیڈریشنوں کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے کی بنیادی ذمہ داری کے ساتھ ایک آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دینے کی سمت گامزن ہیں، یہ فیڈریشنوں کے معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان کھیلوں کے صاف ستھرا مستقبل کے لئے ، حکومت اس طرح کا اقدام اٹھانے کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا ، ہم نہیں جانتے کہ کون کیا کہتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آزاد کمیشن تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب نئی پالیسی کے تحت صو با ئی اور ضلعی حکومتوں کا صوبائی اور ضلعی سطح پر انتخابات کرانے میں کردار ہوگا، نئی پالیسی میںتین رکنی اسپورٹس جوڈیشل کمیشن کا قیام بھی شامل ہوگا، مشہور سابق کھلاڑی اور خواتین اس کمیشن کا حصہ ہوں گے، اگر کسی کھلاڑی کو کارکردگی کے علاوہ کسی اور وجہ سے ہٹادیا گیا ہے تو اسے انصاف کے حصول کے لئے کمیشن سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا،کھیلوں کی نئی پالیسی کے کے تحت پی ایس بی انٹر بورڈ اسپورٹس اور انٹر یونیورسٹی گیمز کا انعقاد کرے۔ گا ہر کھیل کے ٹاپ تین پوزیشن رکھنے والوں کے لئےکیش ایوارڈ بھی فنڈز کی دستیابی سے مشروط کیے جائیں گے۔
حکومت اینٹی ڈوپنگ اینڈ سرویلنس سیل بنانے کا بھی منصوبہ بنا رہی ہے مگر ما ضی میں آج تک کوئی کمیشن فیڈریشن کے متوازی تنازع کو حل نہیں کرسکا، آج بھی کئی کیس ملک کی اعلی عدالتوں میں زر سماعت ہیں۔