• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چاروں واقعات بہت بڑے ہیں ۔ چاروں پر دلی تعزیت۔ سمجھ میں نہیں آتا کر ہ ِ ارض کی اس نئی قتل گا ہ کو کیا نام دوں…؟لا ہو ر کی سیشن کورٹ کے کمر ہ عدالت میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج صادق مسعود کی آنکھو ں کے سامنے انصاف حاصل کر نے کیلئے ایوان عدل پہنچنے والے جماعت ولی اور نثار احمد کو گو لیو ں سے بھون دیا گیا ۔ اس دوران جج صاحب نے اپنی جا ن بچا نے کیلئے کو ن سا طریقہ اختیار کیا یہ تو رپورٹ نہیں ہو ا مگر زنجیر ِ عدل کی تلا ش میں ایسی عدالت تک پہنچنے والا رضوان جب جا ن بچانے کیلئے عدالتی کٹہرے سے فرار ہو کر جج صاحب کے چیمبر میں چھپ کر جا ن بچانے کی کو شش کر نے لگا تو قاتل اُسکے پیچھے جج کے چیمبر میں گھس گئے ۔ رضوان کو جج کے پرائیوٹ کمر ے میں بھی جا ن کی اما ن نہ مل سکی… یو ں تو ہر مقتول کے وارث اور ہر مظلو م فریا د لے کر عدالت میں جا تا ہے ۔ لیکن جو فریادی فر یاد کر تے کر تے عدالت میں قتل کر دیا جا ئے تو انصا ف کیلئے کہا ں جائے گا…؟ گواہوں کی حفاظت کے حق میں سیمینار اور تقریریں ہو تی ہیں لیکن عدالتوں کے اند ر پیش ہو نے والو ں کی حفاظت کو ن کر ے گا ؟
دوسرا واقعہ سردار بہا د رخان ، ویمن یو نیورسٹی کوئٹہ میں پیش آیا جبکہ تیسر ا واقعہ بولا ن میڈیکل کمپلیکس کے اند ر رونما ہو ا ۔ ان دونو ں واقعا ت میں تیس(30)سے زیا دہ بے گنا ہ ما رے گئے اور اس سے بھی سے زیا دہ شد ید زخمی ہو ئے ۔ ایسے ہر واقعہ کے بعد سرکا ر ی عہدیداروں اور برسراقتدار لیڈروں کی جا نب سے پہلے سے لکھا ہوا طے شدہ ظالمانہ مذاق کیا جا تا ہے ۔ اور وہ یہ کہ ہم نے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے ‘ ملزموں کو نہیں چھوڑیں گے ۔
آئندہ ایسے واقعات کی اجا زت نہیں دیں گے ۔ ایسے بیا نا ت کا مطلب ٹی وی اور اخبار میں اپنی شہرت کے علا وہ اور کچھ نہیں ہو تا ۔ کیونکہ غم کے ما ر ے ہو ئے مجبو ر پا کستانی جا نتے ہیں کہ یہ بیا ن منشیوں اور کلرکو ں نے جا ری کئے ہیں ۔ لیڈروں نے ان بیا نا ت کو نہ لکھوایا ہے نہ ہی پڑھا ہے ۔
جس ملک میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو معطل کر نے والا ، انصا ف کو قید کرنے والا ، آئین توڑ کر مارشل لا پلس جا ری کر نے والا اقتدار میں ہو ‘ وہاں اُس کے سابق مرشد اور اس بدامنی کے خالق کو کیا ڈر ہو سکتا ہے؟ وزیر داخلہ چوہد ری نثار نے بلو چستان کے حادثات کے بعد سید ھی بریفنگ دے کر اور پھر اگلے د ن کوئٹہ پہنچ کر وزارتِ داخلہ کی وہ روایت ختم کر دی جس کے مطابق ایسے ہر سانحے پر اداکاری اور فنکا ری کے جو ہر دکھا ئے جا تے تھے ۔ اور قوم کو انکشافات کے حیر ت کدے کی سیر کر وائی جا تی تھی ۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ چو ہد ری نثار قانون نافذ کر نے والے اور خفیہ اداروں میں فوری طور پر نئے سرے سے تنظیم بلکہ تجدید کر یں ۔ قومی بجٹ پر بحث والے دن چوتھا المنا ک واقعہ بانی پا کستان قائد اعظم محمد علی جنا ح کی رہا ئش گاہ پر حملہ ہے ۔ زیارت میں واقع قائد اعظم ریذیڈنسی علامتی طور پر ایسی جگہ ہے جس پر حملے کا درد مو جو د ہ پا کستانیو ں کے علا وہ تحر یک پاکستان کے شہید وں اور غازیو ں نے بھی محسوس کیا ہو گا۔ انگر یزی زبان میں کہتے ہیں ”ہر بربادی کے اند ر سے ایک اُمید افزا موقع بھی نکلتا ہے “۔ مجھے یہ محاورہ زیارت میں قائد اعظم کی رہا ئش گاہ پربزدلانہ حملے کے بعد سامنے آنے والے ردِ عمل کو دیکھ کر یا د آیا ہے ۔ کیو نکہ زیا رت شہر کے لو گوں بلوچستان بھر کے طالبعلموں ، اسکالروں اور رائے عامہ کے بڑوں نے قائد اعظم کی رہا ئش گا ہ پر حملے کو اپنے گھر پر حملہ سمجھ کر شدید عوامی ردِ عمل ظا ہر کیا ۔ لیکن مجھے افسو س سے کہنا پڑتا ہے کہ بلوچستان کی موجود ہ حکو مت کا کو ئی منتخب لیڈر نہ تو دوڑ کر زیارت پہنچا اور نہ ہی بلوچستان اسمبلی کا فو ری اجلاس بلوایا گیا ۔ اور نہ ہی پا کستان کی قومی اسمبلی میں اس حملے پر شد ید ردِ عمل ظا ہر کر کے بلو چستان میں قائداعظم کے حق میں اُٹھنے والی پرجو ش محبت کی لہر کو خراج تحسین پیش کیا گیا ۔ پا کستا ن جل رہا ہے ۔ بانی پاکستان کا گھر جل رہا ہے۔ میڈیکل کا لج کی مسیحا بچیاں اور قابل فخر نرسیں زند ہ جلا ئی جا رہی ہیں ۔ عدالت کے کمر ے میں قتل ہو رہے ہیں ۔ ججوں کے کمر ے تک ٹارگٹ کلنگ کی شکارگاہ بن رہے ہیں۔جمہوریت اچھی بلکہ بہت”اچھی چیز “ہے۔ لیکن لو گ اسی جمہو ریت سے حفاظت کے طلبگار ہیں ۔ بجٹ کے ٹیکسوں کی کرامات، ایف بی آرکے گورکھ دہندہ پر بحث نے پارلیمنٹ کو ڈبیٹنگ کلب بنا دیا ہے ۔ ایک ایسا کلب جس کے ممبر ابھی تک تو محفوظ ہیں ۔لیکن ریڈ زون کی محفوظ پنا ہ گا ہ کے باہردوسری طرف جنھو ں نے اپنی حفاظت کی اُمید پر ووٹ دیا ان کی آوازہزارے وال صد یق منظر نے اُٹھا ئی ہے ۔ پارلیمنٹ ابھی بڑے سرمایہ داروں کی خدمت پر مامور ہے ۔ دُکھیاہزارے وال نے جو پیغام پارلیمنٹ کے نا م مجھے لکھ بھیجا ہے ۔ وہ میں لفظی خدمت کے ستا ئے ہو ئے عوام اور درد مند دلو ں سے شئیر کر نا چاہتا ہو ں :
تمہیں اعزاز بخشا ہے
کروڑوں دل جلو ں نے
بے روزگا روں
غم کے ما روں نے
گرجتی گونجتی شوریٰ میں تقریروں سے
کب فاقے بہلتے ہیں
تمہا رے خوش نما نعروں کے
یہ شاداب موسم اور بہاریں میں نے کیا کر نا ؟
مرے آنگن میں اب تک بھوک کے
سائے ٹہلتے ہیں
تمہا رے سبز باغو ں کی قطاریں میں نے کیا کرنا؟
فضا میں چیتھڑے اُڑتے شہیدوں کے بدن
بارود کی خوشبو میں لپٹے گیلری سے دیکھتے ہیں
جنہیں مصلو ب ہو نا تھا وفا کی راہ میں
سب ہو گئے ہیں
لہو آلو د کُر تے اور عما مے تخت پر رکھے ہو ئے ہیں
سبھی خوش ہیں حکومت کر رہے ہیں
ہمیں مر نا ہے اور ہم مر رہے ہیں
تمہا ری مہر بانی سے مرے دریا کے پا نی سے
کو ئی بجلی نہیں بنتی ۔
تمہا رے کاغذی پھو لو ں پہ اب تتلی نہیں اُڑتی
جہا ں دریا گزرتے تھے وہا ں اب خاک اُڑتی ہے
ہما ری چاندسی گڑیا
حنا ہاتھو ں پہ ملنے کو ترستی ہے
تمہارے دفتروں کی جا لیو ں سے جھانکتا بچہ
ہما ری جا ن کا ٹکڑا
کسی دریا میں کو دا ہے
لگائے ڈگریاں سینے سے اب تک گھر نہیں لوٹا۔
تازہ ترین