جب قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی کرکے بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت خوری میں ملوث ہو جائیں تو اس سے نہ صرف ادارے کی ساکھ مجروح ہوتی ہے، بلکہ کئی سوالیہ نشان بھی اٹھ جاتے ہیں ۔ کروڑوں روپے رشوت وصول کرنے کا کچھ ایساہی اسکینڈل ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کےبدعنوان اور راشی اعلیٰ افسران کی جانب سے اس وقت سامنے آیا، جب ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے جرائم میں ملوث آئی ٹی کمپنی کو تحقیقات سے بچانے کے لیے کروڑوں روپے رشوت وصول کرنے پر سابق ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم سرکل کراچی عبداالغفار کو منی لانڈرنگ کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا، مذکورہ انکوائری میں سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم فیض اللہ کوریجو سمیت دیگر افسران کے خلاف بھی کارروائی کے لیے تحقیقات میں پیش رفت ہونے کا امکان ہے۔
سائبر کرائم سرکل میں جرائم میں ملوث آئی ٹی کمپنیوں کو تحقیقات سے بچا کر دیگر قانونی آئی ٹی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کے عیوض 6کروڑ سے زائد کی رشوت طلب کی گئی تھی ،سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کے خلاف ایف آئی اے کو ایک کروڑ 40لاکھ روپےرشوت وصولی کے شواہد ملنے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا ہے ۔ واقعات کے مطابق ایف آئی اےسائبر کرائم سرکل سندھ میں کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال ،رشوت وصولی اور خواتین کو ہراساں کرنے کے الزامات پر رواں برس کے آغاز میں وزارت داخلہ کی ہدایات پر ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیا نے تحقیقات کا حکم دیا تھا ، جس کے لیے ایف آئی اے کے ایک سینئر افسر ڈاکٹر اطہر وحید کو ٹاسک دے کر خصوصی طور پر کراچی بھیجا گیا تھا اور انہیں ایڈیشنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل کا چارج دیا گیا اور ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل نے 4 فروری 2021کو انکوائری نمبر 5/2021 کا آغاز ہوا۔
اس انکوائری کے لیے ایڈیشنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرکل ڈاکٹر اطہر وحید کے ماتحت 8فروری کو اس تحقیقات پر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل بھی دی گئی تھی، جس میں اینٹی کرپشن سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد علی ابڑو، انسپکٹر راشد بھٹی اور سب انسپکٹر حبیب الرحمان شامل تھے، جب کہ اس جے آئی ٹی کی معاونت کے لیے اینٹی کرپشن سرکل کے دیگر افسران بھی شامل رہے ہیں ۔اس تحقیقاتی ٹیم نے 20مارچ کو صرف سابق ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کے خلاف مقدمہ نمبر 4/2021درج کیا تھااور اس مقدمے میں ہی منی لانڈرنگ کی علیحدہ سے تحقیقات کے لیے سب انسپکٹر حبیب الرحمان کو انکوائری افسر مقرر کیا گیا ۔
ایف آئی اے دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی مذکورہ انکوائری میں ایک کروڑ 40 لاکھ روپے رشوت وصولی کے شواہد تحقیقاتی افسر کو ملے ہیں، جس کے مطابق آئی ٹی کمپنی میسرز اے بی ٹیک نے جرائم کی تحقیقات سے بچنے کے لیے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے رشوت وصولی کے لیے لاہور میں نجی بینک (حبیب بینک )کا سہارا لیا اور امین نامی شخص نے پہلے ایک کروڑ روپے بینک کے کھاتے نمبر 1025-79001305-03میں منتقل کیے اور یہ اکاوئنٹ ٹائٹل نجمہ حفیظ کے نام سے موجود ہے، جب کہ مذکورہ شخص نے 40 لاکھ روپے لاہور میں براہ راست نجمہ حفیظ کو نقد رقم کی صورت میں دیے جس کے بعد امین نے عبد االغفار کو موبائل فون پر آگاہ اور بعد ازاں یہ رقم مختلف بینک کھاتوں میں منتقل کی گئی ۔
ایف آئی اے دستاویزات کے مطابق عبدالغفار نے سرکاری ملازمت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسےذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس کے شواہد ملنے پر ان کے خلااف منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت مقدمہ نمبر 8/2021درج کرتے ہوئے عبدالغفار کو گرفتار کرکے عدالت میں ریمانڈ کے لیےپیش کیا گیا، جب کہ اس مقدمے میں نجمہ حفیظ نامی خاتون کی جائیداد کے ضبطگی بھی منی لانڈرنگ کی سیکشن 2کے تحت عمل میں لائی گئی ہے ۔واضح رہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں گزشتہ کئی برس سے اعلیٰ افسران کا ایک نیٹ ورک محترک تھا، جو جرائم میں ملوث کمپنیوں کو انکوائریوں سے بچنے کی سہولت فراہم کرتا رہا ہے، جب کہ سوشل میڈ یا پر بلیک میل ہونے والی خاتون درخواست گزاروں کو بھی ہراساں کرنے میں ملوث رہا ہے، جس پر متعدد شکایات اعلیٰ حکام کو ارسال کی گئی تھیں۔
تاہم ان کی جانب سے بھی کارروائی سے گریز کیا جاتا رہا ہے ،چوں کہ یہ معاملہ ہائی پروفائل حیثیت اختیار کرگیا تھا اور اس پر وفاقی وزارت داخلہ نے بھی نوٹس لیا تھا۔ اس لیے کارکردگی دکھانے کے لیے ایف آئی اے حکام کو کسی بھی صورت کارروائی کو آگے بڑھانا تھا اور تحقیقات میں ایک حساس ادارے کی رپورٹ کو بنیاد بنایا گیا، جس میں الزامات عائد کئے گئے تھے کہ سائبر کرائم ونگ کے بعض افسران نے میسرز اے بی ٹیک کمپنی، میسرز سیل سافٹ کمپنی، میسرز انوویٹو کمپنی اور میسرز ڈی جی ٹونکس کمپنی سمیت بعض سافٹ ویئر کمپنیوں کے خلاف منی لانڈرنگ تحقیقات میں رشوت وصول کی ہے، جب کہ ساتھ ہی ان افسران نے سافٹ ویئر کمپنیوں کےخلاف امتیازی کارروائی کے لیے ان کی بڑی حریف سافٹ ویئر کمپنی کی انتظامیہ سے بھی مراعات حاصل کیں۔
انکوائری میں ابتدائی طور پر ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو، ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار، انسپکٹر نعیم اعوان، انسپکٹر ممتاز، سب انسپکٹر اخلاق، سب انسپکٹر شگفتہ شہزاد، اہلکار خانزادہ، پرائیوٹ پرسن عاقب اور صارم کو شامل تفتیش کیا گیا تھا، اسی انکوائری کے سلسلے میں انکوائری ہیڈ ڈاکٹر اطہر وحید کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا کے چیف اسٹاف افسر کو مراسلہ ارسال کیا گیا تھا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو ،ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار ،انسپکٹر نعیم اعوان ،انسپکٹر ممتاز اور سب انسپکٹر اخلاق کرپٹ پریکٹس اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے میں ملوث ہیں اور ان کےخلاف ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل میں انکوائری نمبر 5/2021درج ہے۔
خدشہ ہے کہ مذکورہ افسران ملک سے فرار نہ ہوجائیں، اس لیے ان کے نام پروویژنل فہرست میں ڈالے جائیں، اس کے ساتھ ہی بعد ازاں بینکوں سے ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ڈاکٹر اطہر وحید کی تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ملک بھر کے بینکس کو خطوط لکھے گے تھے، جس میں شعیب شیخ، برہان مرزا، زاہد عثمان جمال، انظیم بلوانی اور عارف محمود کے نام اور ان کے شناختی کارڈ نمبرز فراہم کرکے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی میں رجسٹرڈ انکوائری نمبر 5/2021 کا حوالہ دیا گیا تھا۔
اپریل کے شروع میں ڈاکٹر اطہر وحید اس انکوائری پر سی ایف آر مکمل کرکے رپورٹ اپنے ساتھ لےکر اسلام آباد چلے گئے تھے اور97 صفحات پر مشتمل رپورٹ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر ارسال کردی گئی تھی، اسی رپورٹ پر تاحال2مقدمات درج کرلیے گئے ہیں اور ان دونوں مقدمات میں صرف ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کوسافٹ ویئر کمپنی سے کروڑوں کی رشوت وصولی الزام میں نامزد اور گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔