شعر و ادب، صحافت اور سیاست کے مردِ میدان، حسرت موہانی 13مئی 1951، جبکہ اپنی زندگی میں بہت کم توجہ پانے والے شاعر مجیدامجد 11مئی 1974کو دنیا سے رخصت ہوئے، ذیل میں حسرت موہانی اور مجید امجد کے حوالے سے خصوصی مضامین نذر قارئین۔
مولانا حسرت موہانی ہماری ادبی و سیاسی تاریخ کی ایک نادر ِروزگار اور عدیم النظیر شخصیت تھے۔وہ بیک وقت شعرو ادب، صحافت اور سیاست کے تین میدانوں کے مرد میدان تھے۔ان تینوں میدانوں میں انہوں نے اپنے وہ انفرادی نقوش مرتسم کیے جو ان کی پہچان قرار پائے۔شاعری میں انہوں نے اپنے لیے نئے راستے نکالے،اپنا ایک جداگانہ رنگ وضع کیا اور اپنی غزل کو ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول عنفوانِ شباب اور زمانہ ٔجوشِ حیات کے جذبات سے مزین کرکے اپنے پیشرو شعرا کی زوالِ شباب کے جذبوں کی غزل سے متمیز کیا۔ڈاکٹر سید عبداللہ ہی لکھتے ہیں کہ :
’’ حسرت نے اربابِ دہلی کی داخلیت اور ارباب لکھنو کی خارجیت کو باہم ملا کر اپنا ایک رنگ پیدا کرلیا ہے جس میں شورشِ عشق کا قلبی تموج بھی ہے اور ستائشِ حسن کا طوفان ِ رنگ بھی۔میر کا وہ رنگ جو مصحفی کے یہاں پہنچ کر غمِ انبساط بن گیا تھا، نسیم دہلوی تک پہنچتے پہنچتے رنگین نگاری سے موسوم ہوا،اور حسرت تک آتے آتے اس نے شگفتہ نگاری کا نام پایا‘‘۔
روزگار ِعیش کی یادوں، جوش ِآرزو کے وفور،اور ساتھ ہی ساتھ ایک سیلِ امید نے ان کی شاعری کو ایک ایسا محشر خیال بنادیا ہے جس کی انفرادیت کو دیکھ کر برملا الطاف حسین حالی ؔ کا یہ شعرنوکِ زبان پر آجاتا ہے :
عالم آوارگاں ہے اک جہاں سب سے الگ
ہے زمیں ان کی، اور ان کا آسماں سب سے الگ
حسرت ایک آزاد منش انسان تھے اور ’آزادی‘ان کی زندگی کا اسمِ اعظم تھا۔وہ لگے بندھے اور استوار راستوں پر چلنے کے بجائے نئے راستے بنانے اور نئی منزلیں تراشنے کے قائل تھے۔انہوں نے اپنی زمین اور اپنا آسمان خود اپنے خون ِدل سے تخلیق کیا تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں سچائی اور خلوص کا جوہر اس قدر نمایاں ہے۔
حسرت کا شعرو ادب کے ساتھ تعلق غیر معمولی سنجیدگی کا تعلق تھا۔باوجود اس کے کہ انہوں نے ایک پُرہنگام سیاسی زندگی کے گوناگوں تقاضوں کو بھی پورا کیا،انہوں نے ادب کی خدمت اسی یکسوئی اور سنجیدگی کے ساتھ کی جس کا ادب تقاضا کرتا ہے۔بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قلم و قرطاس کی دنیا کے ایک فرد کا سیاست کے دشت میں اترنا اس کی ادبی صلاحیتوں کے انحطاط کا ذریعہ بن جاتا ہے، مگر حسرت کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔چنانچہ مولوی عبدالحق بالکل درست کہتے ہیں کہ:
’’ مولانا حسرت ایسے ادیب تھے جنہوں نے باوجود اول سے آخر تک سیاست میں شور بُور ہونے کے ادب کے دامن کو نہ چھوڑا اور جس طرح انہوں نے سیاست میں ہنگامہ برپا کرکے آزادی ، حق گوئی اور جرٔات کی بے نظیر مثال پیش کی ، اسی طرح انہوں نے اپنے افکار و خیالات سے شعر کا درجہ بلند کردیا‘‘۔
حسرت نے بیسویں صدی کے اوائل میں صحافت کا آغازکیا۔ اس سے قبل، انیسویں صدی میں اردو صحافت ابتداًخالص ادبی موضوعات کا احاطہ کرنے کے بعد سرسید احمد خان کے دور تک پہنچتے پہنچتے تہذیبی و تمدنی موضوعات اور معاشرتی مسائل تک اپنادائرہ وسیع کرچکی تھی۔
حسرت موہانی نے جب صحافت کے میدان میں قدم رکھا تو کچھ تو اپنی افتادِ طبع اور کچھ بدلے ہوئے حالات کے سبب وہ اپنی صحافت کو سیاست سے لاتعلق نہیں رکھ سکتے تھے۔آزاد روی حسرت کی سرشت میں شامل تھی۔وہ اپنی پوری زندگی میں جس طرح مصالحت پسندی اورلچک سے دور رہے اور اپنے اٹل موقف کے ساتھ کبھی کانگریس کے پلیٹ فارم سے کانگریس کے ساتھ اور کبھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کے ساتھ اختلاف پر مائل ہوئے، اس کو دیکھتے ہوئے کون کہہ سکتا ہے کہ وہ انگریز کی غلامی کو ایک ثانیے کے لیے بھی قبول کرسکتے تھے۔
غلامی سے نفرت ان کے یہاں اس شدت کے ساتھ پائی جاتی تھی کہ کوئی مصلحت ان کو اس غلامی کو وقتی طور پر بھی قبول کرلینے پر آمادہ نہیں کرسکتی تھی۔اس سلسلے میں وہ خود کو علی الاعلان میانہ رو حلقوں_یا اُس وقت کی مستعمل اصطلاح کے مطابق ’نرم دَل‘_ کا حریف اور ریڈیکل عناصریا ’گرم دَل‘ کا ہم رکاب قرار دیتے تھے۔ ذہن کی اس بغاوت آمادگی اور طبیعت کے اس انقلابی میلان کے ساتھ یہ ممکن ہی نہ تھا کہ حسرت صحافت کے میدان میں قدم رکھتے اور اس کو شعرو نغمہ سے آراستہ گلشنِ ہمیشہ بہار کے طور پر برت کر آگے بڑھ جاتے۔ان کے لیے تو صحافت کا میدان ، وادی ٔ پرخار تھا _یا یوں کہیے کہ انہوں نے خود چاہا کہ یہ ان کے لیے وادیٔ پرخار بنے، کہ زندگی میں صحافت کے حوالے سے حسرت پر جو افتاد پڑی اور جن جن آزمائشوں سے وہ گزرے وہ ان کی اپنی طلب کا سرمایہ ، اور ان کے اپنے انتخابِ حق کا حاصل تھا۔
حسرت کو ایک صحافی کی حیثیت سے جن آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا ، جس طرح ذاتی ہزیمت اٹھانا پڑی اور مالی نقصانات اور روحانی اذیتوں کے جیسے تجربات سے وہ گزرے، وہ شاید کم ہی صحافیوں کے حصے میں آئے ہوں۔ان کے سامنے ان کی کتابوں اور اخبارات کے ذخیرے کو آگ لگائی گئی، جیل میں انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا،ا ن پر عینک استعمال نہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی، دوران ِاسیری ان کے والد کا انتقال ہوا تو اس کی خبر بھی حسرت تک نہ پہنچ سکی، جیل میں ان کو چکی پیسنے کی مشقت برداشت کرنی پڑی۔
یہ سب مصائب ان کے ارادوں کو مضمحل اور آزادی پر ان کے ایمان کو کمزور کرنے میں ناکام رہے ،بلکہ اسیری کے تجربات نے ہمیشہ ان کے فولادی عزم کو صیقل ہی کیا۔یہی نہیں بلکہ قید و بند کی تکلیفوں سے انہوں نے اپنے مزاج کی شگفتگی تک کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ان کا غرورِ عشق کا بانکپن ہمیشہ تازہ رہا۔پہلی بار جیل سے رہا ہونے کے بعد جب حسرت نے از سرِ نو ’اردوئے معلی‘ کی اشاعت کا ارادہ کیا تو ان کے بعض احباب اور بہی خواہوں نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ اب ان کو سیاست سے کنارہ کش ہوجانا چاہیے یا پھر اس ڈگر پر چلنے کا فیصلہ کرلینا چاہیے جس پر کانگریس کا اعتدال پسند گروہ گامزن تھا۔حسرت نے ان مشوروں کے جواب میں جو کچھ لکھا وہ صحافت میں ان کے مسلک کو بھی واضح کرتا ہے اور کسی بھی دور کے اخبار نویسوں کے لیے باضمیر صحافت کا ایک معیار بھی فراہم کرتا ہے۔
۔حسرت نے بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت اپنے جریدے ’اردوئے معلی‘کے ذریعے حریتِ فکر اور آزادی ٔ کامل کا پرچم بلند کیا جب ہندوستان کے جدید تر ذہن بھی استعمار کے بہم کردہ دائرہ عمل میں رہتے ہوئے چند مراعات اور تدریج کے ساتھ حاصل ہونے والی رعایتوں کے حصول سے آگے سوچنے پر آمادہ نہیں تھے۔ ان رعایتوں کے حصول کے لیے ہندوستان کے لبرل عمائدین وفود کی شکل میں انگلستان کا رخ کرتے، اپنی عرضداشیں پیش کرتے اور جو کچھ بہم ہوجاتا وہ حاصل کرکے اور بقیہ مطالبات کو آئندہ کے لیے اٹھا رکھنے پر آمادہ ہوکر واپس آجاتے۔
حسرت موہانی کی شوریدہ سرطبیعت استعمار اور حُبّ ِوطن کے درمیان’بقائے باہمی ‘ کی اس نہج کو کیونکر قبول کرسکتی تھی جس کی پشت پر ایک جانب برطانیہ کی استعماری بیوروکریسی تھی اور دوسری جانب ہندوستان میں انگریز کی اقتصادی، انتظامی و تعلیمی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نئی اشرافیہ _حسرت کا اپنا خمیر اس طبقے سے اٹھا تھا جو انگریزی استبداد کا مرہونِ احسان نہیں تھا بلکہ جو اس استبداد کو ہندوستان کے جوہرِ خودی کے اِتلاف کا ذریعہ سمجھتا تھا، وہ استعمار اور اس کی چیرہ دستیوں کا کامل ادراک رکھتے تھے اور ان سے مکمل نجات کے علاوہ اور کوئی راستہ ان کے نزدیک ہندوستان کے مفاد میں نہیں تھا۔قلم، حسرت کا ہتھیار تھا اور صحافت ان کی جدوجہد کا سب سے اگلا مورچہ۔اس محاذ پر حسرت نے ایک عمر دادِ شجاعت دی۔
شاعری اور صحافت کی طرح حسرت کی سیاست بھی اپنے جداگانہ طرزِ فکر، ہندوستان کے سماجی و سیاسی حالات کے بارے میں ان کے تجزیے، ان کی شدید استعمار دشمنی، اصولوں کے ساتھ محکم وابستگی، معاندانہ سے معاندانہ ماحول میں بھی اظہارِ حق کی جرأت اور قول و فعل کی یکجائی کے حوالے سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتی ہے۔الغرض حسر ت موہانی کی اصابتِ فکر، خلوصِ نظر اور پیمانِ وفا سے وابستگی کے نقوش ہمیشہ تابندہ رہیں گے اور نسلیں ان سے استفادہ کریں گی۔