پاکستان کے باصلاحیت کھلاڑی حکومتی اداروں کی سرپرستی نہ ہونے اور مسلسل نظر انداز کئے جانے کے باوجود ملک اور ملک سے باہر اپنی بھرپور مہارت سے ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہونہار کھلاڑی بلوچستان کے پسماندہ علاقے قلعہ عبداللہ تحصیل گلستان کلی عبدالرحمن زئی کے رہنے والے پاکستانی سپوت عزت اللہ کاکڑ ہیں جنہوں نے امریکا میں ورلڈ پروفیشنل کک باکسنگ جیسے خطرناک کھیل میں انگلش باکسر کو صرف دو منٹ میں ناک آئوٹ کرکے نہ صرف تاریخی کارنامہ انجام دیتے ہوئے پاکستانی پرچم بھی رنگ میں بلند کیا۔
ناانصایوں اور زیادتیوں کے باوجود عزت اللہ کاکڑ توقع کررہے ہیں کہ شاید کسی حکومتی ذمہ دار کا ضمیر جاگ جائے اور ان جیسے کئی اور کھلاڑیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ اگرچہ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم خود ایک نامور اسپورٹس مین ہیں، اپنے دور اقتدار کے پونے تین سال گزارنے کے باوجود عمران خان نے کھیلوں کی ترقی اور کھلاڑیوں کی بہتری کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کا کھیلوں سے تعلق رکھنے والا طبقہ برملا اظہار کررہا ہے۔ پاکستانی کھلاڑی دیار غیر میں ہوٹلوں، پٹرول پمپس، سپراسٹورز حتی کہ ٹرک چلا کر اپنی گزر و اوقات کررہے ہیں اور عالمی مقابلوں میں بھی حصہ لے رہیں۔
ملک میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود عزت اللہ کاکڑ حوصلہ افزائی نہ ہونے پر احساس محرومی اور حکومتی اداروں کی جانب سے صلاحیتوں کا ادارک اور تعاون نہ کئے جانے پر مایوس ہوکر دیار میں سکونت اختیار کرلی ہے۔ انہوں نے الباما میں ہونے والی بی کے ایف سی فائٹ کے دوران صرف دو منٹ میں انگلش حریف کرس سارو کو ناک آئوٹ کیا۔ عزت کاکڑ پہلے پاکستانی ہیں جنہوں نے بفیر گلوز اور گئیرز فائٹ میں حصہ لیا اور فتح حاصل کی۔ ان کا اگلا ٹارگٹ اسرائیلی فائٹر ہے اور وہ اس سے مقابلہ کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔ عزت اللہ کوئٹہ میں اپنے کوچ حاجی رحمت اللہ کی زیر نگرانی فائٹر اسپورٹس اکیڈمی میں تربیت حاصل کرتے رہے ہیں اور اپنے کوچ کو اس کامیابی کا اہم حصہ قرار دیتے ہیں۔
کوچ رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ عزت میرا ہونہار شاگرد ہے اس نے ملک میں اور ملک سے باہر پاکستان کا نام روشن کیا ہے حکومت کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے تاکہ بلوچستان سے احساس محرومی کا خاتمہ ہوسکے۔ بلوچستان میں کھیلوں سے تعلق رکھنے والے صمد اچکزئی کا کہنا تھاکہ حکومت کو کھیلوں کے حوالے سے اپنا قبلہ درست کرنا چاہئے اگر اس ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو نوجوانوں کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ان کو بھرپور سہولتیں فراہم کی جانی چاہئے۔
جنگ نے امریکا کے شہر فلاڈیلفیا میں رہائش پذیر عزت اللہ کاکڑ سے رابطہ کرکے پروفشنل فائٹ میں شاندار کامیابی اور اس کی تیاری کے بارے میں دریافت کیا تو ان کی کہانی نے اس ملک اور اس کے ہر اداروں پر براجمان افراد کو اپنی کارکردگی سے آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ عزت کاکڑ کا کہنا تھاکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں بلوچستان کا ایک غریب کھلاڑی تھا جس کو ملک میں پذیرائی نہ ملی۔
میں نے ملک سے باہر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ 2005 ء میں کراٹے سے اپنے کیریئر کا اغٓاز کیا اور کئی قومی ایونٹس میں میڈلز حاصل کئے۔ سیف گیمز میں اسپورٹس عہدیداروں کی پسند نہ پسند کا شکار ہوکر قومی دستہ سے باہر کردیا گیا۔ حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث اپنی مدد آپ ملک سے باہر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور ایران، دبئی، روس گیا جہاں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ایران میں ہونے والی چیمپئن شپ میں دنیا کئی ممالک نے شرکت کی اس میں سلور میڈل حاصل کیا جس پر وزیراعلی بلوچستان اسلم رئیسانی نے پانچ لاکھ روپے کی انعامی رقم دی۔
2013ء میں بہت کوشش کی کہ بلوچستان میں اسپورٹس کے حوالے کوئی نوکری مل جائے تاکہ اپنا کھیل جاری رکھ سکوں اس کیلئے بہت دھکے کھائے لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔ ایک بار پھر مایوس ہوکر پاکستان سے باہر قسمت آزمانے کی کوشش کی۔ پہلے روس پھر اس کے بعد ملائشیا، انڈونیشیا اور پھر سمندری راستے آسٹریلیا جانے کا زندگی کا سب سے بڑا خطرناک ترین معرکہ سرکرنے کی کوشش کی۔ آسٹریلیا پہنچ تو گیا لیکن وہاں گرفتار کرلیا گیا اور آٹھ نو سال جیل میں وقت گزرا۔
اس دوران بھی اس نے اپنی توجہ گیم پر فوکس کی اور کسی نہ کسی طرح ٹریننگ جاری رکھی۔ قید کے دوران اپنی آواز کسی نہ کسی طرح انسانی حقوق کی تنظیموں تک پہنچائی جنہوں نے جیل میں مجھ تک رسائی حاصل کی اور میرے کیس کو آسٹریلوی عدالت تک پہنچایا۔ رہائی پر امیگریشن پر امریکا کا ویزہ ملا اور وہاں کی شہریتحاصل کی۔ عزت کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں نے فلاڈیلفیا میں مزدوری کی اور اس وقت میں ٹرک چلا رہا ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے کھلاڑی مختلف ممالک میں ہوٹلوں سمیت مختلف جگہوں پر مزدوری کررہے ہیں۔
الباما میں بی کے ایف سی فائٹ میں ساری توجہ اپنے مخالف پر تھی کہ اس پر شروع سے ہی حاوی ہوکر اسے ناک آئوٹ کرنا ہے اور میں اپنی کوشش میں کامیاب رہا اور دو منٹ میں کرس کو ناک آئوٹ کرکے پاکستانیوں کو ایک تحفہ دیا ہے۔ اسپانسر نہ ہونے اور کسی قسم کی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ مجھے اس فائٹ کی انعامی رقم 14 سو ڈالر ملی۔
اگر میرے پاس بڑے اسپانسر اور سپورٹ کرنے والے لوگ ہوں تو میں بھی مقابلوں میں کئی کئی ہزار ڈالرز حاصل کرسکتا ہوں۔ حکومت پاکستان سے میری درخواست ہے کہ پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں کھیلوں کو ترقی دی جائے۔ مجھے کچھ نہیں چاہئے میرے علاقے میں کھیلوں کیلئے ایک اسٹیڈیم بنایا جائے جہاں میں، میرے کوچ اور دیگر ساتھی نوجوانوں کھلاڑیوں کو ٹریننگ دیں اور انہیں منشیات اور بری لتوں سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔