بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اصل لفظ ’’چاہ ‘‘ ہے (محبت کے معنی میں )اور اس پر عربی کے انداز میں ’’ت‘‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ چاہت کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ وارث سرہندی نے بھی ’’علمی اردو لغت ‘‘ میں ’’چاہت ‘‘ کے معنی محبت ، پیار الفت لکھ تو دیے ہیں لیکن اسے ’’چاہ ‘‘ سے رجوع کرادیا ہے۔
بات یہ ہے کہ قواعد، لسانیات اور لغت نویسی کا مسلمہ اصول ہے کہ لفظ کے معنی اس کے استعمال سے طے ہوتے ہیں اور اگر کسی لفظ میں کسی زبان کے مستند لکھنے والوں نے کوئی تصرف کرلیا ہے تو اس زبان کی حد تک وہی استعمال درست ہے۔ اردو میں مستعمل فارسی ، ہندی، انگریزی، ترکی اور عربی کے بلا مبالغہ ہزاروں الفاظ ایسے ہیں جن میں تصرّف اور تبدّل کرلیا گیا ہے اور انھیں مستند اہل قلم نے استعمال بھی تصرف اور تبدیلی کے ساتھ کیا ہے ۔ چنانچہ اردو میں یہ تصرف کے ساتھ درست مانے جاتے ہیں۔
مثلاً انگریزی کے لفظ لینٹرن (lantern) کو ہم نے ’’اُردُوا ‘‘لیا اور’’ مؤرّد‘‘ ہو کر یہ لفظ لالٹین بن گیا۔ اب اردو میں لالٹین ہی درست ہے۔ اردو میں لینٹرن کہنا محض تکلف ہی سمجھا جائے گا۔انگریزی کے لفظ اسپینر (spanner) (ایک اوزار کا نام) کا تلفظ انگریزوں کے منھ سے سن کر ہم اسے ’’پانا ‘‘ سمجھے (کہ لفظ کے آخر میں آنے والا حرف ’’آر‘‘ (R) انگریزکے منھ سے الف یا ہلکی سی ’’ہ‘‘ کی صورت میں نکلتا ہے)۔ گویا اس لفظ کی’’ تارید ‘‘ہوگئی اور اب اردو میں ’’پانا ‘‘ ہی درست اور فصیح مانا جائے گا۔
کچھ یہی کیفیت لفظ ’’چاہت ‘‘کی بھی ہے ۔ لفظ ’’چاہ ‘‘ یقینا سنسکرت سے آیا ہے (یعنی فارسی
’’ چاہ ‘‘بمعنی کنواں سے قطع نظر )لیکن اس میں اردو والوں نے ’’ت ‘‘ لگا کر اپنا ایک لفظ بنالیا ہے اور اسے بڑے شعرا و ادبا نے استعمال بھی کیا ہے ، مثلاًاردو لغت بورڈ نے ’’باغ ِ اردو ‘‘نامی کتاب (۱۸۰۲ء) سے اس کی قدیم ترین سند دی ہے۔ اس کے بعد سند کے لیے میر انیس کا یہ شعردیا ہے :
اے بیت ِ مقدس تری عظمت کے دن آئے
اے چشمہ ٔ زمزم تری چاہت کے دن آئے
جبکہ انیس سے پہلے ناسخ نے کہا تھا :
میری چاہت نے کیا آگاہ اس طنّاز کو
ہے بجا سمجھوں وکیل اپنا اگر غمّاز کو
بہرحال ، عرض یہ کرنا ہے کہ لفظ ’’چاہت ‘‘ کا استعمال اردو کے ان استاد شعرا کے ہاں ملتا ہے جو سند سمجھے جاتے ہیں لہٰذا اس کی ثقاہت پر سوال اٹھانا مناسب نہیں۔ چاہ کے ساتھ چاہت بھی بالکل درست ہے۔