ممتاز مصنف والٹر لِپ مان نے کہا تھا کہ ’’صحافت میں اس سے بڑا کوئی قانون نہیں ہو سکتا کہ کہ سچ بولا جائے اور سچ کے ذریعے ڈاکوئوں اور لٹیروں کو شرمندہ کیا جائے‘‘۔آج کل صحافت میں سنسنی خیز رحجانات کی بھرمار ہے جس کی وجہ سے مبالغہ آرائی ہماری تحریروں کا ایک جزو خاص بن گئی ہے جس نے ٹھیک اور غلط میں تمیز کرنا انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔ ایسی تحریروں کا قریب سے جائزہ لینے پر معلوم ہوگا کہ یا تو ان میں حقیقت پسندی کا مکمل فقدان ہوتاہے یا حقائق ان تحریروں میں محض ایک چھوٹے سے عنصر کے طورپر نظر آتے ہیں۔یہ سب کچھ ایک ایسے ادارے سے وابستہ لوگوں کی طرف سے کیا جاتا ہے جو خود کو ریاست کا چوتھا ستون گردانتے ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ریاست کے باقی ستون اپنے کام احسن طریقے سے کر رہے ہیں۔
کچھ دن قبل میں نے ٹی وی پر ایک سینئر اینکر اور تجزیہ کار کو انتہائی غصے کی حالت میں یہ کہتے سنا کہ حکومت شہباز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت کیوں نہیں دے رہی؟ موصوف نے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا کہ سیاستدانوں (شریف خاندان) کے خلاف قائم مقدمات فوری طورپر ختم کئے جائیں اور انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایک اور ٹی وی پروگرام میں بعض اینکرز/تجزیہ کاروں کو یہ کہتے سنا کہ عمران خان کو دوسری بار حکومت ملنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے یہاں تک کہ انہوں نے اس شخص کا نام بھی بتا دیا جو ان کے خیال میں ملک کا آئندہ وزیراعظم ہو سکتا ہے۔ایسی کئی مثالیں ریکارڈ پر موجود ہیں جہاں صحافی اڑتی چڑیا کے پَر گننے کے دعوے کرتے اور حکومتوں کی تقدیر کے بارے میں فیصلے سناتے رہتے ہیں ، وہ اپنے تجزیوں میں یہاںتک بیان کرتے سنائی دیتے ہیں کہ کونسی حکومت کتنے دن چل سکے گی؟ جب ایسے خودساختہ تجزیے کرنے والے صحافیوں کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی ہیں تو وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے ایک نئی ڈیڈلائن دے دیتے ہیں۔
بظاہر ایسا کرنا ایک معمولی اقدام لگتا ہے لیکن بعض صحافتی لبادہ اوڑھے نجومیوں کا یہ ایک پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ وہ حقائق اور اعدادوشمار کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے کسی مسئلے کی کوئی واضح جانچ پڑتال کرنے سے انکاری ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مفروضوں پر مبنی بیانیے پیش کرکے لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ وہ ان کی باتوں پر یقین کریں گے۔ ایسے لوگوں کی تحریروں پر بناوٹی پن غالب نظر آتا ہے۔ ان کے خیال میں باعمل یا مثبت بحث کو آگے بڑھانے کی ضرورت نہیں، ایسا لگتا ہے کہ وہ چند کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو نہیں چاہتے کہ لوگوں کو اصل حقائق کے بارے میں آگہی او رشعور دیا جا سکے۔
درج بالا مثالوں کے ضمن میں ایک اخلاقی تضاد نظر آتا ہے ۔ کیا یہ لوگ ایسےسیاستدانوں کی رہائی کے لئے وکالت کر رہے ہیں جنہوں نے نہ صرف ملک کو خود بیدردی کے ساتھ لوٹا اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اپنی ہولناک حرکتوں کی وجہ سے دوسروں کے لئے بھی ایسا کرنے کی راہ ہموار کی ،کیا کبھی کسی نے اصل حقائق جاننے کی کوشش کی؟ کیا چند بد دیانت سیاستدانوں کے چھوڑ دینے کی ترغیب دینے سے اس موقف کو تقویت نہیں ملتی کہ پاکستان میں انصاف کے دو الگ الگ نظام قائم ہیں ،ایک دولت مند (یعنی سیاستدان اور اشرافیہ) کے لئے اور دوسرا غریب کے لئے ؟کیا انہوں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے طرز عمل سے ریاستی اداروں کو کتنا نقصان پہنچا اور اس سے حکومتی امور پر کیا منفی اثرات مرتب ہوئے؟ کیا ان لوگوں نے کبھی یہ بھی محسوس کیا ہے کہ ان لیڈروں کے طورطریقوں کی وجہ سے بحیثیت قوم ہم کس قدراخلاقی گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں؟ بدعنوان اشرافیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج ہر شخص یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ اپنی مرضی کرنے میں آزاد ہے۔مہذب معاشرے قانون کی حکمرانی پر پختہ یقین رکھتے ہیں جو ایک پائیدار نظام انصاف سے جنم لیتا ہے اور قومی رول ماڈلز کی عمدہ اقدار اور روایات پر استوار کیا جاتا ہے۔ اگر ملک اور معاشرے کو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنا اور لوگوں کو بااختیار بنانا ہے تو اس کے لئے قابل اعتبار نظام عمل کا موجود ہونا لازمی ہے۔
ایسے لوگوں کو چھوڑنے کی ترغیب دینا دہرے معیار کی ایک منفرد مثال ہے۔ ایک طرف تو یہ حکومت میں موجود مجرمانہ فعل کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی التجا کرتے ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ مجرموں ،ملزموں اور مفروروں کی رہائی کی وکالت کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ اگر معاشرے میں انصاف کا قیام برابری کی بنیاد پر ہونا ہے تو پھر اسے کسی امتیاز کے بغیر قائم کرنا پڑے گا۔ کبھی کبھی ایسے لوگوں کے صحافتی تجربے پر شک کا گماں گزرتا ہے جو انہیں ایسی باہم متصادم تجاویز پیش کرنے پر اکساتا ہے یا شاید اس پیشے کا تکبرانہ معیار ہے جس نے انہیں مستقبل کے بارے میں الٹے سیدھے مفروضے گھڑنے کا لائسنس دے رکھا ہے۔
ایسے لوگوں کو اپنی تحریروں اور الفاظ کے چنائو میں اپنے مقدس پیشے کی روایات کی پاسداری کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران پیش آنے والی رکاوٹوں کو اکھاڑ پھینکنا ہوگاکہ صرف ایک مخصوص گروہ کے حق میں بولی جانے والی سچائی سچ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتی۔ یقیناً یہ ایک انتہائی دشوار اور کٹھن راستہ ہے لیکن اس پر عمل کرنا ایک منصفانہ اور مساوی ریاست اور معاشرے کے قیام کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
(صاحب تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)