• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

براعظم یورپ کا ایک اور اہم ملک ’’نیدر لینڈز‘‘ ہے، جو ایک ایسی سرزمین ہے، جہاں کئی نامور تخلیق کاروں نے جنم لیا۔ دوسری جنگ عظیم میں اس ملک کو بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس عظیم اور تباہ کن جنگ کے بعد سے لے کر، عہد ِحاضر تک، جن ادیبوں کو’’شاندار ادیبوں‘‘ میں شامل کیا گیا، ان کی حتمی تعداد تین ہے، جنہوں نے جنگ عظیم کے بعد، مصائب سے گھرے ہوئے ملک میں، اپنی تخلیقات سے، معاشرے پر مثبت اثرات مرتب کیے اور دنیا بھر میں اپنے ملک کا عمدہ تعارف بھی ہوئے۔ ان تین میں سے ایک ادیب’’ہیری مولیش‘‘ تھے، جنہوں نے شاندار ادب تخلیق کیا اور نان فکشن تحریروں میں بھی غور و فکر کی نئی جہتیں تلاش کیں اور ان کو عام قاری کے لیے سہولت سے بیان کیا۔

وہ ایک ادیب ہونے کے علاوہ، ایک اچھے ڈراما نگار، مضمون نویس اور فلسفیانہ فکر کے حامل تھے۔ انہوں نے بطور شاعر بھی حساس نظمیں تخلیق کیں۔ ان کی پیدائش 29جولائی 1927کی ہے، جبکہ 30اکتوبر 2010 کو وفات پائی۔ ان کے والد آسٹریا و ہنگری نژاد تھے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد، ہجرت کر کے نیدر لینڈز میں آباد ہوئے تھے۔ 

ان کے والد جرمن بینک میں ملازم تھے، والدہ یہودی تھیں، جس کی وجہ سے، دوسری جنگ عظیم کے دوران، ان کے خاندان کو کافی مشکلات سہنا پڑیں، حتیٰ کہ والد کو قیدوبند کی صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے والدین تو کسی طرح نازی کیمپوں سے بچ نکلے، البتہ دادی گیس چیمبرز میں ہلاک ہوئیں۔ یہی وجہ ہے، ان کی تحریروں میں، ان کے کرداروں میں پہلی جنگ عظیم اور بالخصوص دوسری جنگ عظیم کے اثرات واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ 1971 میں ان کی شادی ہوئی، جن سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

’’ہیری مولیش‘‘ نے 1952 میں لکھنے کی ابتدا کی۔ ان کی پہلی تصنیف ایک ناول تھا، اس کے اگلے برس ایک ناولا لکھا اور کچھ مختصر کہانیاں لکھیں، پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا، انہوں نے تقریباً آٹھ ناول لکھے، متعدد مختصر کہانیاں تخلیق کیں، اسٹیج کے لیے ڈراما نگاری کرتے ہوئے درجنوں ڈرامائی کہانیاں تخلیق کیں، مضامین کے ذریعے بھی، زندگی بھر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے کردار ہوں یا پھر نان فکشن تحریروں کے ذریعے، خیالات کا اظہار، ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ ان کی سوچ کا محور دوسری جنگ عظیم تھی، جس سے ان کی ذاتی زندگی بے حد متاثر ہوئی تھی۔

انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے تناظر میں ہی 1982 کو ڈچ زبان میں ایک ناول’’دی اسالٹ‘‘ لکھا، جس کے لغوی معنی ’’ایک حملہ‘‘ کے ہیں۔ اگلے برس انگریزی میں بھی اس ناول کا ترجمہ ہوگیا۔ اس کے بعد ان کی شہرت اپنے ملک سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئی، ان کی نگارشات کے تیس زبانوں میں تراجم ہوئے، ان کا شمار نوبیل انعام برائے ادب کے لیے بھی کیا جاتا رہا، مگر انہیں یہ انعام تو نہ ملا، لیکن ان کے لکھے ہوئے اسی ناول پر فلم بنائی گئی، جس کی نمائش 1986 میں ہوئی، اس فلم نے گولڈن گلوب اور آسکر ایوارڈ جیسے فلم کے مقبول اعزازات اپنے نام کرلیے۔ ان کے ایک اور ناول’’جنت کی دریافت‘‘ کی اشاعت 1992 میں ہوئی، اس کو نیدر لینڈز میں، ڈچ زبان کا عظیم ترین ناول گردانا گیا۔ اس پر بھی فلم بنائی گئی۔

وہ ایک حساس انسان تھے، زندگی کے بیانیے کو فکشن میں ڈھالنا تو ایک طرف، لیکن انہوں نے براہ راست اور حقیقی زندگی کو بھی اپنی خودنوشت کی صورت میں بیان کیا اور اپنے خاندان بالخصوص والد کی قید و بند کے تناظر میں بھی کتابیں لکھیں۔ یہودی بھی ان کی تحریروں کا مرکز رہے اور یونانی فلسفے پر بھی انہوں نے خوب توجہ صرف کی، غرض کہ زندگی میں جو کچھ محسوس کیا، اس کو بہت مناسب انداز میں رقم بھی کر دیا، تاکہ دوسروں کو اس سے کچھ روشنی مل سکے۔ ان کی رحلت پر ملک کے وزیر اعظم سمیت دیگر بڑی سیاسی شخصیات نے دلی افسوس کااظہار کیا۔ انہیں اپنے ملک سمیت دیگر کئی بڑے عالمی و ادبی اعزازات بھی پیش کیے گئے۔ موجودہ ڈچ ادب پر ان کی تخلیقات کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔

’’ہیری مولیش‘‘ کے ناول’’دی اسالٹ‘‘ کو ہم نے یہاں منتخب کیا ہے، جس پر بنی فلم نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اس ناول کا مرکزی خیال، دوسری جنگ عظیم کے بارے میں ہی ہے۔ ایک ایسے خاندان کو دکھایا گیا ہے، جس پر نازی حملہ آور ہوتے ہیں، تمام افراد کو مار دیا جاتا ہے، صرف ایک کمسن لڑکا زندہ بچ جاتا ہے، جس کو وہ قید کر لیتے ہیں اور پھر وہ کس طرح بقا کی جنگ لڑتا ہے، اس کہانی میں یہی دکھایا گیا ہے۔ ایک خوفناک رات کا بیان، جس میں زندگی موت کی کشمکش منعکس ہے۔ اس ناول کی کہانی اتنی پر اثر تھی کہ اس کو فوری طور پر فلم بنانے کے لیے منتخب کرلیا گیا، اس فلم کی کامیابی نے، اس کے درست انتخاب پر مہر تصدیق ثبت کی۔

اس ناول کی اشاعت کے بعد، صرف دو لاکھ کاپیاں تو نیدرلینڈز میں ہی فروخت ہوگئیں اور دیگرزبانوں ناول کی فروخت اس کے علاوہ ہے۔ معروف ڈچ فلم ساز ’’فونس ریڈی میکرز‘‘ نے اس پر شاندار فلم بنائی، جس کا اسکرین پلے’’جیراڈ سوئٹ مین‘‘ نے لکھا، جبکہ ڈچ اداکاروں نے اپنی حقیقی اداکاری سے فلم بینوں کو اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبانے پر مجبور کر دیا، اس قدر ڈرامائی حقیقت نگاری کا مظاہرہ کیا، خاص طور پر اس کمسن اداکاری نے دل کو چھولینے والی اداکاری کی۔ یہ فلم یوٹیوب پر دستیاب ہے، قارئین چاہیں تو دیکھ بھی سکتے ہیں۔

دوسری جنگ عظیم میں کس طرح عام لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑی، یہ ناول اور فلم اس عام آدمی کا دلکش بیان ہے۔ ناول لکھ کر عام آدمی تک اپنے احساس کو پہنچانے والے ادیب کی اس کہانی پر جب فلم بنی، تو اس کا اظہاریہ پوری دنیا میں پہنچ گیا، چاہے ناول یا پھر فلم، دونوں ایسے میڈیم ہیں، جن کے ذریعے تاریخ کو زندہ رکھا جاسکتا ہے ، اس کی مثال یہ ناول اور فلم ہیں، جن کی شہرت اب بھی قائم ہے۔

تازہ ترین