• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگ، بیانیہ کس کا چلے گا، پارٹی پر کنٹرول کی جنگ شروع، کوئی گروپ نہ شہباز شریف سے اختلاف،مریم، کوئی جھگڑا نہیں، چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جارہا ہے، احسن اقبال


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ میں بیانیہ کس کا چلے گا اور پارٹی کو اب کون لیڈ کرے گا، ن لیگ میں اختلافات سنگین ہوتے جارہے ہیں ،پارٹی پر کنٹرول کی جنگ شروع ، واضح طور پر دو گروپس ہیں ،ایک مریم نواز کا گروپ ہے جو نواز شریف کا بیانیہ آگے لے کر چلنے کا حامی ہے۔

دوسرا شہباز شریف گروپ ہے جو چاہتا ہے کہ ٹکراؤ سے پرہیز اور مفاہمت سے کام لیتے ہوئے 2023ء کا الیکشن جیتنے پر فوکس کیا جائے، ن لیگ کی سینئر قیادت چاہتی ہے کہ نواز شریف اس حوالے سے واضح فیصلہ لیں۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے نواز شریف نے پارٹی قیادت اور بیانیہ کے حوالے سے فیصلہ نہ کیا تو پارٹی تقسیم ہوسکتی ہے،جبکہ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہاہے کہ نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ ضمنی انتخابات جیتی،اداروں سے بات چیت کی مخالف نہیں ہوں،پارٹی میں کوئی گروپ نہ شہباز شریف سے اختلاف ہے۔

ن لیگ کے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے کہا ہے کہ ریاست نے نواز شریف کی کردارکشی کیلئے اربوں روپے خرچ کئے، اس کے باوجود ن لیگ کی عوام میں مقبولیت برابر ہے، کوئی جھگڑا نہیں چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جارہا ہے۔

شاہزیب خانزادہ نے اپنے تجزیئے میں مزید کہا کہ شہباز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق ن لیگ کے تقریباً تمام سینئر رہنماؤں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شہباز شریف کو فری ہینڈ دیا جائے، عمران خان کی حکومت کو ہدف بنایا جائے، اداروں سے محاذ آرائی نہ کی جائے، اداروں سے ڈائیلاگ کر کے معاہدہ کیا جائے جس میں حدود کا تعین کیا جائے۔

ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی کی شمولیت کے حوالے سے بھی دونوں گروپس میں واضح اختلاف ہے، شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے حوالے سے مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی کے سخت موقف پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

شہباز شریف چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں واپس آئے، شہباز شریف کو پیپلز پارٹی کو شوکاز نوٹس دینے پر بھی اعتراض ہے، شہباز شریف کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی استعفے دینے کی مخالف ہے تو اسے کیوں مجبور کیا گیا۔

ہمارے ذرائع کے مطابقدونوں گروپس میں اختلاف کی وجہ سے ن لیگ کی سینئر قیادت میں بے چینی ہے، شہباز شریف نواز شریف سے آمنے سامنے بات کرنے کیلئے لندن جاناچاہتے تھے، شہباز شریف چاہتے تھے کہ نواز شریف فیصلہ کریں بیانیہ کیا ہوگا اور پارٹی کون لیڈ کرے گا، مریم نواز لیڈ کریں گی یا وہ خود لیڈ کریں گے اور بغیر مداخلت کے لیڈ کریں گے، آئندہ کا وزیراعظم کون ہوگا؟ 

شہباز شریف چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور مریم نواز اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بند کریں، خاموشی اختیار کرلیں اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیں، شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف انہیں پارٹی کا مکمل کنٹرول دیدیتے ہیں تو پھر وہ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں اور اداروں کے ساتھ ڈائیلاگ کریں گے، اگر نواز شریف نہیں مانتے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔

ذرائع کے مطابق پارٹی کی سینئر لیڈرشپ شہباز شریف کے موقف کی حامی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ مریم نواز کراؤڈ پلر ہیں مگر ابھی شہباز شریف کو معاملات حل کرنے دیئے جائیں مگر مریم نواز اس سے متفق نہیں ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق شہباز شریف کی رہائی کے بعد اختلاف میں مزید شدت آئی ہے، شہباز شریف نے جیل سے رہا ہونے کے بعد واضح پیغام دیا کہ وہ پارٹی صدر ہیں ان کی مرضی کے بغیر جلسے جلوس اور کوئی میٹنگ نہیں ہوگی۔

اس کے بعد مریم نواز نے اپنی سرگرمیاں محدود بھی کردیں، شہباز شریف گروپ سمجھتا ہے کہ مریم نواز انتخابی سیاست کو نہیں سمجھتیں اس لئے آئندہ انتخابات کی مہم شہباز شریف کو لیڈ کرنے دی جائے، انہیں اداروں سے بھی معاملات طے کرنے دیئے جائیں، گراؤنڈ پر بھی شہباز شریف اور حمزہ شہباز کوآگے سیاست کرنے دی جائے۔ 

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس معاملہ پر موقف لینے کیلئے مریم نواز سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ن لیگ میں دو کیمپس نہیں ہیں رائے کا اختلاف ضرور ہے، انہوں نے بتایا کہ بیانیہ میرا نہیں نواز شریف کا ہے، اگر مجھے خاموش کروابھی دیا جائے تب بھی نواز شریف کا ہی بیانیہ چلے گا۔ 

مریم نواز نے مزید کہا کہ پارٹی میں اکثریت نواز شریف کے بیانیہ کے ساتھ ہے، یہ تاثر غلط ہے کہ ن لیگ میں اکثریت مصلحت پسندوں کی ہے، حالات میں بہتری نرمی اور مصلحت کی وجہ سے نہیں بلکہ نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے آئی ہے۔

مفاہمت اور مصلحت سے مسائل حل ہونے ہوتے تو شہباز شریف اور حمزہ جیل نہ جاتے، مفاہمت سے راستہ نکلنا ہوتا تو اب تک نکل چکا ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا، مریم نواز نے مزید کہا کہ نواز شریف کے بیانیہ کی وجہ سے ن لیگ ضمنی انتخابات جیتی، عوام میں پذیرائی ہوئی توا داروں کو بھی نرمی اختیار کرنا پڑی۔

مریم نواز نے مزید کہا کہ شہباز شریف کی اپنی رائے ہے مگر وہ کرتے وہی ہیں جونواز شریف کہتے ہیں، اب بھی وہی ہوگا جو نواز شریف کہیں گے، وہ اپنے بھائی کے خلاف نہیں جائیں گے، ہم نے مریم نواز سے سوال کیا کہ بات نواز شریف سے اختلاف کی نہیں ہے بات آپ سے اختلاف کی ہورہی ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا شہباز شریف سے کوئی اختلاف نہیں ہے نہ ہی کوئی گروپ ہے، میں وہی کرتی ہوں جو نواز شریف مجھے کہتے ہیں، وہ جہاں جانے کا کہتے ہیں میں وہاں چلی جاتی ہوں، وہ جہاں جانے سے منع کرتے ہیں میں رک جاتی ہوں۔

اب بھی وہ جو کہیں گے میں وہی کروں گی، میں اداروں سے بات چیت کی بالکل مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی تصادم کی حامی ہوں لیکن میں کسی ڈیل کی حامی نہیں ہوں، بات چیت ہونی چاہئے لیکن صرف آئندہ شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے ہونی چاہئے۔ 

شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار سیاست میں دوبارہ متحرک ہوئے تو خبریں سامنے آئیں کہ ان کا اور شہباز شریف کا رابطہ ہوا ہے، یہ رابطہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ چوہدری نثار کا موقف بھی ماضی میں وہی رہا ہے جو شہباز شریف کا ہے۔

چوہدری نثار بھی مفاہمت چاہتے اور نواز شریف کے مزاحمت کے بیانیہ کیخلاف ہیں، مگر ن لیگ میں بہت سے لوگ چوہدری نثار کے خلاف ہیں، وہ مشکل وقت میں پارٹی کو چھوڑ کر گئے اب ان کی جگہ نہیں ہونی چاہئے۔

شاہد خاقان عباسی نے ہمارے پروگرام میں کہا کہ چوہدری نثار کو جماعت سے رابطہ کرنا چاہئے انفرادی رابطے سے کام نہیں چلے گا، مریم نواز سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ چوہدری نثار کا ن لیگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

تازہ ترین