سندھ کے امن کو کسی کی نظر لگ گئی یا پھر اپنے امن کی خرابی کے ہم خود ذمے دار ہیں ؟ تین سال میں تین آئی جی بدلے، امن بحال ہونے کے بہ جائے خراب اور اب خراب سے خراب تر ہوتا جارہا ہے، آخر کسی کو تو ذمے داری لینا ہوگی کہ تین برسوں میں ایسا کیا ہوا، تین سال قبل سندھ کے مثالی امن و امان کے ہر طرف چرچے تھے اور اب ڈاکوؤں کی جدید اسلحے کے ساتھ ٹک ٹاک، اغوا برائے تاوان، بدامنی لو ٹ مار، شہری، دیہی سارے علاقے ہی متاثر دکھائی دیتے ہیں۔
اگر بات کی جائے سکھر ریجن اور لاڑکانہ ڈویژن کے ضلع شکارپور کی یہاں امن و امان کا مسئلہ کئی برسوں سے درپیش ہے ،لیکن یہاں بھی صورت حال گزشتہ تین برسوں میں بہت زیادہ خراب ہوئی ہے ۔ شکارپور کچے کے علاقوں خاص طور پر شاہ بیلو میں پولیس کے ڈاکووں کے خلاف آپریشن کام یاب کیوں نہیں ہوتے۔
اس کی کیا وجوہ ہیں ؟ یہ سندھ کا وہ ضلع ہے ، جہاں ڈاکووں کے ہاتھوں پولیس کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ یہ ضلع گزشتہ کئی برسوں سے بدامنی کی لپیٹ میں ہے، جہاں پر اغواء برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کی وارداتیں اور خاص طور پر قبائلی تنازعات شامل ہیں، جس کے باعث لوگ جدید اسلحہ سے لیس ہیں اور یہ لوگ کچے کے علاقوں میں بیٹھ کر مختلف ڈاکوؤں کی گینگز بنا کر جرائم کی وارداتیں خاص طور پر اغوا برائے تاوان کی وارداتیں انجام دیتے ہیں اور ان ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر نے ان علاقوں کو نو گو ایریا میں بدل دیا ہے۔
پولیس کی جانب سے ان ڈاکوؤں کے خلاف متعدد بار آپریشن کئے گئے، لیکن ہر بار پولیس کو اپنا نقصان کرا کر واپس آنا پڑا ۔ ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی میں ان دو سے تین سالوں میں ڈی ایس پی، ایس ایچ او سے لےکر متعدد افسران اور سپاہی شہید ہوئے، لیکن پولیس کے حصے میں نقصان کے سوا کچھ نہ آیا اور یہ صورت حال جوں کی توں ہے۔
گزشتہ دنوں بھی شکارپور پولیس نے 12 مغویوں کی بازیابی کے لیے کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں آپریشن شروع کیا، تو ڈاکوؤں نے پولیس پر حملہ کرکے 2 پولیس اہل کار اور ایک پرائیویٹ فوٹوگرافر کو شہید اور 6 پولیس اہلکاروں کو زخمی کردیا اور ڈاکووں نے جس بکتر بند اے پی سی گاڑی کو راکٹ لانچر سے نشانہ بنایا، ڈاکو اس اے پی سی چین بکتر بند پر چڑھ کر فائرنگ کرتے اور پولیس کو للکارتے دھمکیاں دیتے دکھائی دیے، ڈاکووں نے اپنی متعدد وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کیں، جس میں یہ کہا گیا کہ پولیس اگر دوبارہ آئے گی، تو ایسا ہی ہوگا۔
ڈاکووں کی جانب سے راکٹ لانچر کے ذریعے جس بکتر بند گاڑی پر حملہ کیا گیا ، اس کے نتیجے میں 2 پولیس اہل کار منور جتوئی، سعید مھر اور ، پرائیویٹ فوٹو گرافر حفیظ شیخ موقع پر شہید ہوگئے اور 6 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے، زخمی پولیس اہلکاروں میں سعید احمد مہر، عمران علی سومرو ، اسد علی پھوڑ اور سجاد چانڈیو شامل ہیں۔ ڈاکوؤں کے حملے میں 5 پولیس اہل کار بکتر بند گاڑی میں پھنسے ہوئے تھے، جنہیں بچانے کے لیے ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب اور ایس ایس پی امیر سعود مگسی پولیس کی بھاری نفری لے کر موقع پر پہنچے اور شہید پولیس اہل کاروں کی نعشیں اور زخمیوں کو ڈاکوؤں سے چھڑا کر لے آئے۔
اس سنگین صورت حال کے بعد وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ، آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر کے ہمراہ شکارپور میں آپریشن کا جائزہ لینے خود پہنچ گئے، جہاں انہیں ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب نے بریفنگ دی اور بتایا کہ خیر محمد تیغانی گروہ اغواء برائے تاوان میں ملوث ہے، خیر محمد تیغانی نے مختلف وقت پر 30 لوگ اغوا کیے تھے، جس میں زیادہ تر بازیاب کرا لئے گئے، پولیس کو خیر محمد تیغانی کی موجودگی کی اطلاع تھی کہ اغوا کیے گئے آٹھ افراد کو وہاں جنگل میں رکھا گیا ہے۔ پولیس نے آپریشن شروع کیا ، پہلےاغوا کئے گئے 6 افراد کو بازیاب کروایا گیا، اے پی سی راستے میں پھنس گئی۔
اے پی سی میں چھ پولیس اہلکار موجود تھے ، اے پی سی کے ڈرائیور عبدالخالق، منور جتوئی اور فوٹو گرافر کو فائرنگ میں شہید کیا گیا،ڈاکووں نے شدید فائرنگ کی، جس پر وزیراعلی سندھ نے پولیس کو زبردست آپریشن کرنے کی ہدایت کی اور کہا کہ کوئی ڈکیت بچنا نہیں چاہیے۔ بھرپور آپریشن کیا جائے۔ تمام صلاحیتوں وسائل کو بروئے کار لایا جائے۔ بعدازاں پولیس افسران اور شہدا کے ورثا سے گفتگو میں وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ میں آپریشن میں شہید ہونے والے اور زخمی پولیس اہلکاروں کو سلام پیش کرتا ہوں۔ پولیس اہل کاروں کو شہید اور زخمی کرنے والوں کو انجام تک پہنچائیں گے۔
ایک لاکھ 50 ہزار ایکڑ کچے کی اراضی خالی کرائیں گے۔ سندھ حکومت شہیدوں کے ورثاء کے ساتھ ہے۔ اس موقع پر آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر نے کہا کہ گزشتہ 8 سالوں میں شکارپور میں 24 پوليس اہل کار شہید ہوئے ہیں، تمام ڈاکوؤں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ میں شہید پولیس اہل کاروں اور زخمی اہل کاروں کے ورثہ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کی قربانی رائیگا نہیں جائیں گی۔
وزیراعلی سندھ شہید کے ورثاء کے گھر گئے، دُعا کی اور شہداء یادگار پر پھول چڑھائے۔ اس موقع پر ایڈیشنل آئی جی سکھر ریجن ڈاکٹر کامران فضل ڈی آئی جی ناصر آفتاب، ایس ایس پی امجد احمد شیخ، ایس ایس پی امیر سعود مگسی سمیت دیگر افسران بھی موجود تھے۔ وزیراعلی سندھ نے کشمور کی صورت حال اور آپریشن کے حوالے سے ایس ایس پی امجد احمد شیخ سے بھی معلومات حاصل کیں اور آپریشن تیز کرنے کے حوالے سے ہدایات دیں اور حوصلہ افزائی کی۔ شکارپور کچے میں ڈی آئی جی لاڑکانہ ناصر آفتاب نے ڈاکوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے اور کشمور، جیکب آباد، لاڑکانہ سے بھی پولیس کی بھاری نفری کو طلب کرلیا ہے ۔
ڈی آئی جی لاڑکانہ نے کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں اپنا کیمپ قائم کرلیا ہے اور ایس ایس پی کشمور امجد احمد شیخ بھی اس آپریشن میں شکارپور پولیس کی معاونت کررہے ہیں، جب کہ آئی جی سندھ کی جانب سے کراچی سے 200 ایس ایس یو کمانڈوز بھی شکارپور کچے کے علاقے گڑھی تیغو میں پہنچ گئے ہیں اور پولیس کی جانب سے اس وقت گڑھی تیغو کچے سمیت دیگر دیگر علاقوں میں آپریشن کیا جارہا ہے اور آپریشن کی کمانڈ کرنے والے ڈی آئی جی ناصر آفتاب کے مطابق پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان مقابلے میں 8 ڈاکو ہلاک اور 20 زخمی ہوئے ہیں، جنہیں ان کے ڈاکو ساتھی اٹھا کر لے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس نے متعدد ڈاکوؤں کے ٹھکانوں کو مسمار کردیا ہے اور انہیں آگ لگادی ہے، ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں نہ کوئی سیاسی مداخلت ہے اور نہ ہی کسی سیاست دان کی حمایت ہے، پولیس کا کام ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے جسے ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
کچے کے یہ علاقے اصل میں سیلابی پانی کی گزر کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن قبائلی جھگڑوں اور جرائم پیشہ عناصر نے اس ایریا میں اپنی پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ یہ علاقے گھنے جنگل ہیں اور ڈاکوؤں کی تعداد یہاں 100 سے 150 تک ہے، جن میں تیغانی، جاگیرانی اور دیگر ڈاکوؤں کے گروہ موجود ہیں۔
ان ڈاکوؤں کے خلاف ایک بڑے آپریشن کا آغاز کیا ہے، جسے منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔ شکارپور کے ساتھ کشمور میں بھی ایس ایس پی امجد احمد شیخ کی سربراہی میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ ان دونوں اضلاع میں ڈاکووں کی درجنوں پناہ گاہوں کو مسمار کرکے نذر آتش کردیا گیا ہے۔
شکارپور آپریشن میں پولیس کے 600 اہل کار، 200 کمانڈوز بکتر بند گاڑیوں، اے پی سی چینز جدید ہتھیاروں ، ڈرون کیمروں، نائٹ وژن دوربینوں، روشنی والے گولوں سمیت جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ حصہ لے رہے ہیں، صوبائی حکومت وزیراعلی سندھ اور آئی جی سندھ کی مکمل سپورٹ ہمارے ساتھ ہے۔ آئی جی سندھ مشتاق احمد مہر خود اس آپریشن کو مانیٹر کررہے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو مزید پولیس کے کمانڈوز اور نفری طلب کی جاسکتی ہے ۔ ہمارے افسران اور جوانوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ ڈاکوؤں سے مقابلہ کررہے ہیں ۔
اس بار جو آپریشن شروع کیا گیا ہے، وہ ماضی کے آپریشن سے مختلف ہوگا۔ اینٹی ڈکیٹ آپریشن کے ماہر ایک سینئر پولیس افسر کے مطابق آپریشن کے لیے پہلے پلاننگ کی جاتی ہے۔ اس کے چار سے پانچ فیز بنائے جاتے ہیں اور کچے میں جاکر رہنا پڑتا ہے۔ یہ آپریشن نہیں کہ صبح جاو شام کو آجاو ۔ موجودہ صورت حال میں لگتا ہے۔ ڈی آئی جی ناصر آفتاب بھی کوئی اسی طرح کی پلاننگ کے ساتھ آئے ہیں اور خود سربراہی کررہے ہیں۔ ایس ایس پی شکارپور امیر سعود مگسی ایس ایس پی امجد احمد شیخ ان کے ساتھ ہیں۔
اس سے پولیس افسران خاص طور پر جوانوں کا مورال غیر یقینی سطح تک بلند ہوا ہے، حالاں کہ آپریشن کے آغاز پر پولیس اہل کاروں کی شہادت کے بعد پولیس کا مورال ڈاون دکھائی دے رہا تھا اور سوشل میڈیا پر افسران پر تنقید کی جارہی تھی، لیکن ڈی آئی جی ناصر آفتاب نے خود کچے میں کیمپ لگا کر نہ صرف پولیس کا مورال بلند کیا بلکہ تنقید کرنے والوں کو اپنی زبان سے نہیں اپنے عمل سے چپ کرایا۔ ان جنگلات میں عام طور پر پولیس مقابلوں کی ناکامی کی بڑی وجہ کمانڈ کی کمی ہوتی ہے۔
حالیہ کچھ عرصہ قبل کشمور جیسے علاقے میں ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے خود ڈاکووں کے خلاف آپریشن میں آگے بڑھ کر کمانڈ کی تو دیکھا گیا کہ پولیس جوان تازہ دم اور کمانڈر سے آگے نکلنے کی کوشش میں تھے۔ افسر کے لیے یہ ہے تو ذرا مشکل کیوں کہ ٹھنڈے کمرے سے نکل کر جنگل میں گرمی، مٹی ، پانی اور جنگلات میں لڑنا وہیں کھانا وہیں آرام کرنا، لیکن اس عمل سے پولیس فورس کا مورال بلند ہونے کے ساتھ کمانڈر پولیس جوان کے دل میں گھر کرلیتا ہے اور آج کشمور کے ساتھ شکارپور کی بھی یہی صورت حال ہے، جہاں ڈی آئی جی رینک کا افسر ناصر آفتاب لاڑکانہ میں اپنا دفتر بنگلہ چھوڑ کر کچے میں پولیس جوانوں کے ساتھ آپریشن میں مصروف ہے ۔ اور شکارپور کا آپریشن پولیس کی ابتدائی ناکامی اور اپوزیشن حلقوں کی تنقید کے بعد سندھ میں عوامی بلکہ حکومتی سطح پر فوکس ہے اور وفاقی حکومت بھی اس آپریشن کو دیکھ رہی ہے، کیوں کہ اپوزیشن کا یہ مطالبہ ہے کہ آپریشن رینجرز اور فوج کے ذریعے کرایا جائے۔
تاہم صوبائی حکومت نے تاحال اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا اور لگتا ہے سندھ حکومت یہ آپریشن پولیس کے ذریعے ہی جاری رکھے گی۔، جس کا واضح اعلان وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے شکارپور دورے کے موقع پر خطاب میں کیا اور کہا کہ اگر آپریشن میں کسی ادارے کی ضرورت پڑی تو ضرور لیں گے۔
وہ ہمارے ادارے ہیں لیکن پولیس یہ آپریشن کام یاب بنا لے گی۔ ابھی ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حالیہ بدامنی کی لہر کا وفاقی حکومت خود وزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لیا ہے اور تحریک انصاف کے مرکزی صوبائی رہنما بھی اس صورت حال پر سندھ حکومت پر تنقید کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے سکھر میں دورے کے دوران ڈاکووں کے خلاف آپریشن میں رینجرز اور فوج کی خدمات لینے کی بات ، یہی بات سندھ کے اپوزیشن لیڈر مسلسل کررہے ہیں۔
اب گیند سندھ حکومت کے کورٹ میں ہے ، لیکن یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ آج بھی ڈاکووں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحے کی موجودگی کی باتیں ذمےدار شخصیات کی جانب سے کی جارہی ہیں ، جس سے سوالات تو جنم لیتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے، اگر شاہ بیلو کی بات کی جائے کہ آخر یہ ہے کیا تو کچے کا علاقہ ’’شاہ بیلو‘‘پورے سندھ میں سب سے مشکل اور خطرناک علاقہ ہے، جہاں ڈاکووں جرائم پیشہ عناصر کے متعدد گروہ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔
یہ علاقہ اتنا خطرناک ہے کہ سندھ ، پنجاب ، بلوچستان کے 7 سے 8 اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہ جنگلات پولیس کے لیے مشکل ترین اور ڈاکوؤں جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت تصور کیے جاتے ہیں اور مختلف گینگز مختلف اضلاع کی حدود میں موجود ہیں اور ان جنگلات میں ڈاکوؤں کے پاس آج بھی پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے۔
پولیس کی سب سے محفوظ سمجھے جانے والی اے پی سی اور بکتر بند گاڑیوں کو بھی ڈاکو اس جدید اسلحے سے نقصان پہنچاتے ہیں، خود پولیس کے ایڈیشنل آئی جی سطح کے افسران یہ کہہ چکے ہیں کہ ڈاکوؤں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ ہے، جس میں جی تھری اور اینٹی ائیر کرافٹ گن تک شامل ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری حکومت اور پولیس کے سربراہ نے کیا حکمت عملی مرتب کی۔
بکتر بند گاڑیوں سے گولیاں پار ہورہی ہیں اور ہمارے پولیس والوں کے ہاتھ میں پرانی بندوق ہے، پھر سوال تو بنتا ہے کہ اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھی ہم سے زیادہ جدید اسلحہ اگر ڈاکوؤں کے پاس ہے تو اس کا ذمے دار کون ہے؟ ہم نے آج تک اپنی پولیس کو جدید خطوط پر استوار کیوں نہیں کیا؟
حکومت کو سوچنا ہوگا اگر اپوزیشن کا موقف غلط ہے تو حکومتی ترجمان وضاحت کرے تاکہ اصل حقائق عوام کے سامنے آئیں، فوری ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو جدید اسلحے بکتر بند گاڑیاں اے پی سی چینز اور آلات سے لیس کیا جائے تاکہ ہماری پولیس فورس مزید بہتر انداز میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی بلا خوف و خطر مزید بہتر انداز میں ادا کرسکے۔