خیال تازہ … شہزادعلی ایران میں اس ماہ کی 18تاریخ کو صدارتی انتخاب منعقد ہو رہے ہیں ہر چار سال بعد صدر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے کیا جاتا ہے جس کے امیدواروں کی منظوری شوریٰ نگہبان دیتی ہے ۔ 18 برس کی عمر کے شہری ووٹ ڈال سکتے ہیں مجوزہ انتخاب میں 7 امیدوار حصہ لے رہے ہیں ان اُمیدواروں میں موجودہ چیف جسٹس ابراہیم رئیسی، سابق جوہری مذاکرات کار سعید جلیل، پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر محسن رضائی، ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ عبدالناصر ہمتی، پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر عامر حسین غازی زادہ، سابق نائب صدر مہر علی زادہ اور سابق قانون ساز علی رضا زکانی شامل ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس صدارتی انتخاب لڑنے کے خواہش مند 590 اُمیدواروں میں سے صرف ان سات امیدواروں کو انتخاب لڑنے کا اہل قرار دیا گیا ہے جبکہ ان سات میں سے صرف دو اصلاح پسند / سینٹرلسٹ امیدوار ہیں اور دونوں کو کم پروفائل سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی عدلیہ کے سربراہ، ابراہیم رئیسئی، جو 2017 کے انتخابات میں رنر اپ تھے انہیں سب سے زیادہ متحرک خیال کیا جاتا ہے اور کچھ ریاستی پولز کے مطابق وہ سخت گیروں hardliners میں پسندیدہ امیدوار ہیں۔ بی بی سی کے مطابق کچھ مبصرین کا بلکہ خیال ہے کہ مسٹر رئیسئی کی بڈ bid میں مدد کرنے کے لئے باقی امیدواروں کوچل میدان میں اتارا گیا ہے۔ بی بی سی انگریزی سائٹ پر لکھا ہے کہ پچھلے انتخابات کے بعد سے چار سال میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے اور یہ اہم وجوہات ہیں کہ کیوں اس الیکشن کو بنظر غائر دیکھا جائے گا؟ بڑھتا ہوا عدم اطمینان،2017سے گذشتہ صدارتی انتخابات کے بعد سے واقعات کے ایک سلسلہ ہائے نے ایرانی پولیٹیکل لینڈسکیپ کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔ ان وجوہات میں حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن، سیاسی اور سماجی کارکنوں کی گرفتاریاں، سیاسی قیدیوں کی پھانسی، ایران کے اسلامک انقلاب گارڈ کور (IRGC) کے ذریعہ یوکرائنی ہوائی جہاز کے نیچے فائرنگ کا تبادلہ اور امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایک شدید معاشی بحران شامل ہیں۔ عام ایرانیوں میں پائے جانے والے تحفظات آئندہ انتخابات پر خاصا اثر ڈال رہے ہیں۔ شاید ایران کے حکمرانوں کو سب سے زیادہ دھچکا ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں کمی کا پیش آئے گاکیونکہ انتخابی حلقوں میں عدم اطمینان اپنی انتہا پر ہے۔ معیشت نے ہمیشہ ایرانی انتخابات میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور یہ ہر امیدوار کے ایجنڈے میں اہم ہے۔ غیر یقینی معاشی صورتحال کی وجہ سے ایران 1979 کے انقلاب کے بعد اب انتہائی نازک مرحلے میں ہے۔ امریکی پابندیوں کے اثرات اور کرونا وائرس پینڈیمک کی وجہ سے بڑھی ہوئی معاشی بدحالی ’جو ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں سے ایک ہے‘ مہنگائی کی شرح 50فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بطور پاکستانی اور کشمیری ہمارے لیے بھی ایران کے انتخابات کئی اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں ۔ شہنشاہیت سے قطع نظر ایران پہلا ملک تھا جس نے پاکستان کی نو زائدہ مملکت کو تسلیم کیا تھا اور رضا شاہ پہلوی وہ پہلے سربراہِ مملکت تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا تھا ۔ ایک وقت تھا کہ پاکستان اور ایران کے مابین خوشگوار تعلقات قائم تھے، 1965کی پاک بھارت جنگ میں ایران کی پاکستان کی دفاعی امداد اقتصادی اور فوجی اشتراکِ تعلقات کا ثمر تھا ،تاہم ایرانی انقلاب جس سے امریکہ اور ایران کے تعلقات کار کی کایا پلٹ گئی تھی پاکستان جو امریکی کیمپ کا حصہ تھا کے ساتھ بھی دو برادر ملکوں کے تعلقات اس کے بعد کئی موڑ مڑتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایران کی بجا طور پر یہ خواہش رہی کہ پاکستانی عوام بھی امریکہ نواز حکومتوں سے نجات حاصل کر لیں لیکن پاکستان اور ایران کے زمینی حالات اور کلچر میں بہت فرق ہے پھر افغانستان کے واقعات، خطے میں امریکی مداخلت، ہر ملک کے اپنے اپنے مفادات کے باعث ان تعلقات میں اپ ڈاون آتا رہا ہے۔ امریکی چھتری تلے ایک آمر کے دور میں پاکستان کے اندر جب کلاشنکوف کلچر عام ہوگیا اور ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دیا گیا اور افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستانی اور کشمیری گروہ کے گروہ جہادی نقطہ نظر سے بھیجے گئے یہ لوگ ’افعانستان جو امریکی سرپرستی میں عالمی امریکی جہادیوں کا گڑھ بنا ہوا تھا ‘سے مذہبی منافرت اور تعصبات کے نئے نئے نظریات لے کر پاکستان اور کشمیر تک پھیل گئے، اس تناظر میں جب 1988 میں سوویت افواج نے افغانستان سے اپنا انخلاء مکمل کیا تو ایران پاکستان تعلقات میں بہتری کے بجائے مزید کشیدگی پیدا ہوگئی۔ (جاری ہے)