• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جیت ہار کا فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی، فی الوقت جنگ بندی ہوگئی ہے۔ مسلسل دو ہفتوں تک غزہ کے مظلوم و محصور مسلمانوں پر اسرائیلی درندوں نے وحشیانہ بمباری کی۔ شہدا کی تعداد 293اور زخمیوں کی تعداد 2000سے زائد بتائی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل اتنا جری کیوں ہے کہ وہ ہر کچھ عرصے کے بعد فلسطینی مسلمانوں کو خون میں نہلا دیتا ہے؟ کیونکہ امریکہ ایک ایسی قوت ہے جو اسرائیل کی پشت پر اس کے ناجائز جنم سے لے کر اب تک کھڑی ہے اور اس وقت تک رہے گی جب تک پوری دنیا خصوصاً عالمِ اسلام سے اسے تسلیم نہیں کروالیا جاتا۔

امریکہ کی اسرائیل کو یہاں تک پشت پناہی حاصل ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ہمیشہ سے ویٹو کرتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل کے حق میں امریکی ویٹو کی یہ تاریخ آپ کی آنکھیں کھول دے گی۔ مختلف عربی اور انگریزی رپورٹوں کے مطابق 1972میں شام اور لبنان نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل میں شکایت دائر کی۔ سلامتی کونسل کے 15ارکان میں سے 13نے شام اور لبنان کی حمایت کی اور اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی درخواست کی۔ اسرائیل کے حق میں صرف ایک ووٹ پڑا۔ 2 اکتوبر 1972 کو امریکہ نے اسرائیل کے حق میں ویٹو کردیا۔ 1973 میں مشرق ِوسطیٰ کی صورت حال پر 8ممالک نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ ایوان کے 15 میں سے 13 ارکان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیے۔ امریکہ نے 7فروری 1973 کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ 1975میں مصر اور لبنان نے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی درخواست کی۔ 13 ممالک نے حمایت اور ایک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 12اگست 1975کو امریکہ نے اسے ویٹو کردیا۔ 1976 میں 6بڑی اقوام نے فلسطینی ایشو اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر اقوامِ متحدہ میں اپیل دائر کی۔ 9 ممالک نے اسرائیل پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جبکہ 3ممالک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اس قرارداد کو بھی امریکہ نے 26جنوری 1976کو ویٹو کردیا۔ مارچ میں 5ممالک نے عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔ امریکہ نے اسے ویٹو کردیا۔ حقوقِ انسانی کی کمیٹی نے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی مظالم کو بنیاد قرار دے کر اسرائیل کے خلاف کارروائی کی درخواست کی۔ 10ممالک نے اس درخواست کی حمایت کی اور 4نے مخالفت۔ امریکہ نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ اپریل 1980 میں تیونس نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لئے درخواست دی۔ امریکہ نے 30اپریل 1980کو اسے ویٹو کردیا۔ اردن نے جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف جنوری 1982کو اسرائیل کے خلاف درخواست دی۔ امریکہ نے 20 جنوری 1982 کو اسے ویٹو کردیا۔ اردن نے مقبوضہ علاقوں کی دگرگوں صورت حال پر فروری 1982میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ 13 ارکان نے اس ایشو پر اردن کی حمایت کی، اسرائیل کو صرف ایک ووٹ ملا۔ امریکہ نے 2 اپریل 1982 کو اسے بھی ویٹو کردیا۔

آپ ’’انصاف ‘‘کے علمبردار امریکہ کی ہٹ دھرمی کی تاریخ پڑھتے جائیں اورسوچتے جائیں۔ اپریل 1982 ہی میں مسجدِ اقصیٰ پر حملے کے خلاف 4ممالک نے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو 14ووٹ ملے مخالف کوئی نہیں تھا لیکن 20اپریل 1982کو امریکہ نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ جون 1982میں لبنان کے ایشو پر اسپین نے قرارداد پیش کی۔ 14ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی، صرف ایک ملک مخالف تھا لیکن امریکہ نے 8 جون 1982 کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اگست 1982 میں سوویت یونین نے لبنان ایشو پر قرارداد پیش کی۔ سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 11 ارکان نے روس کی حمایت کی اور اس قرارداد کی مخالفت میں 3ووٹ پڑے۔ امریکہ نے 6 اگست 1982 کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اگست 1983 میں 20ممالک نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی۔ 13ممالک نے فلسطینیوں اور ایک ملک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ 2اگست 1983 کو امریکہ نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ 1983 میں سلامتی کونسل نے مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبے کی مخالفت کی۔ امریکہ نے اس احتجاج کو کارروائی کا حصہ ہی نہیں بننے دیا۔ اسی طرح بالترتیب 6 ستمبر 1984 ، 13 ستمبر 1985 ، 12 مارچ 1985، 30 جنوری 1986 ، 17 جنوری 1986 ، 6 فروری 1986 ، 18 جنوری 1988 ، 10 مئی 1988 ، 14 دسمبر 1988 ، 17 فروری 1989 ، 9 جون 1989 ، 7 نومبر 1989 ، 31 مئی 1989 ، 31 مئی 1990 ، 17 مئی 1995 ، 7 مارچ 1997 ، 21 مارچ 1997، 27 مارچ 2001 ، 15 دسمبر 2001 ، 20 دسمبر 2002 ، 16 ستمبر 2003 ، 14 اکتوبر 2003 کو امریکہ نے اسرائیل کے حق میں ویٹو پاور استعمال کی۔ مارچ 2004میں ایریل شیرون کے حکم پر شیخ احمد یاسین کو میزائل حملے میں شہید کردیا گیا۔ سلامتی کونسل نے اس کھلی جارحیت کا نوٹس لیا۔ سلامتی کونسل کے 15میں سے 11 ارکان نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ظلم قرار دیا۔ امریکہ نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ جولائی اور 11نومبر 2006 کو بھی غزہ پر اسرائیلی حملے روکنے کے لئے سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہوئی لیکن حسبِ روایت امریکہ نے اسے بھی ویٹو کردیا اور اسرائیل کی بے جا حمایت کا یہ سلسلہ تاحال 2021 تک جاری ہے۔

اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے خلاف نہ صرف اقوامِ متحدہ میں سب سے زیادہ قراردادیں پیش ہوئیں بلکہ اس کے خلاف سب سے زیادہ قراردادیں منظور بھی ہوئیں لیکن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں پر آج تک اس نے عمل نہیں کیا۔ اسرائیل کی یہ جرأت اسلئے ہے کہ اس کا پشت پناہ امریکہ ہے جو دنیا بھر سے دہشت گردی ختم کرنے کا بظاہر دعویٰ کررہا ہے لیکن حقیقت میں دہشت گردوں کے سرپرستوں کا کردار ادا کررہا ہے۔ امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی قوتیں کان کھول کر سن لیں کہ یہ کائنات اور یہ دھرتی ظلم و ناانصافی کو زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرتی۔ دنیا کی معلوم تاریخ کی گواہی یہی ہے۔

تازہ ترین