• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
(گزشتہ سے پیوستہ)
افغانستان میں پاکستان اور ایران دونوں کی اپنا اپنا دائرہ اثر بڑھانے کی جنگ جاری رہی جو کسر باقی تھی وہ بعض ممالک نے پوری کردی اور یہ خطہ مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ اور علاقائی تعصبات کے رنگوں میں رنگ گیا جس کا ایک منطقی نتیجہ پاکستان میں فرقہ وارانہ پر تشدد واقعات اور پاکستان ایران سے مزید تعلقات کار کے خرابی کی صورت میں نکلا آگے چلیں تو 1996 میں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف امریکہ کی سرپرستی میں پاکستان اور سعودی عرب طالبان اور دوسری طرف بھارت، روس اور ایران تھے جو احمد شاہ مسعود کے شمالی اتحاد کی حمایت کررہے تھے۔ تاہم ماضی کے برعکس افغانستان کے معاملے پر ایران اور پاکستان کے درمیان اب بعض تجزیہ کاروں کے مطابق صورتِ حال تبدیل ہو رہی ہے اب اسلام آباد اور تہران دونوں یہ چاہتے ہیں کہ افغان فریقین کے درمیان سیاسی تصفیہ طے پا جائے اور اگر افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور ایران کے درمیان مشاورت کا عمل جاری رہے اتفاق رہا تو پاکستان اور ایران کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ یہاں بعض اذہان میں پاکستان اور ایران کے تعلقات کے حوالے سے جو بعض مرتبہ یہ سوالات اُٹھتے ہیں کہ پاکستان اور ایران دو برادر مسلم ممالک ہیں جن کے درمیان کئی مذہبی قدریں مشترک ہیں مگر ان کے مابین تعلقات کار میں وسیع اُتار چڑھاؤ کیوں رہتا ہے تو اوپر بالا صورت حال سے کسی حد تک ان تعلقات کی نوعیت اور پس پردہ عوامل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے یعنی دونوں ممالک کے تعلقات خطے میں ہونے والی تبدیلیوں کے تابع ہیں جہاں ہر ملک اپنے اپنے مفادات کا اسیر ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کی اس رائے میں بھی شاید وزن ہے کہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے مراسم کی وجہ سے بھی اس کے ایران کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہتے ہیں البتہ بعض ماہرین کی یہ رائے خوش آئند ہے کہ پاکستان اب یہ کوشش کر رہا ہے کہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات میں توازن میں رکھے بعض جائزے یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان اور ایران کا اسٹریٹیجک اعتبار سے اہم ترین محل و قوع بھی بعض عالمی طاقتوں کے مفادات کے خلاف ہے اسی لئے بعض عالمی پلئیر بھی اپنے مفادات کے لیے پاکستان اور ایران کے درمیان اچھے تعلقات نہیں دیکھنا چاہتے۔ تاہم ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایران سے ایک طویل بارڈر کی وجہ سے پاکستان کی سرحدی علاقوں کی تجارت اور کاروبار کا انحصار ایران پر ہے۔ پاکستان ایران سرحد نو سو کلو میٹر سے زیادہ لمبی ہے جب کہ ایران پاکستان کے جنوبی شہر گودار کے لیے ایک سو میگاواٹ بجلی بھی فراہم کر رہا ہے یہ بھی خیال رہے کہ چند سال قبل پاکستان اور ایران نے اپنے دو طرفہ تجارتی حجم کو 2021 تک پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا تھا تاہم پاکستان ایران سرحد پر تین طرح کے مسائل بھی ہیں جن میں غیر قانونی تجارت، انسانی اسمگلنگ اور سرحد کے آر پار بعض شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں شامل ہیں۔ انتہا پسند عناصر کی کارروائیوں سے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کار تناو پیدا ہوتا رہا ہے یادر ہے کہ پاکستان اور ایران نے لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہو سکی ہے اوپر بالا سرسری سا جائزہ یہ نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایران کے یہ انتخابات نہ صرف ایران کے اندرونی معاملات بلکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے بھی اہم ہیں ۔
تازہ ترین