دنیا بھر کے مہذب معاشروں میں یہ چلن ہے کہ انتخابات کے بعد جو بھی نئی حکومت قائم ہوتی ہے اسے 90 روز کاHONEY MOON PERIOD دیا جاتا ہے ۔مخالف سیاسی قوتیں اور میڈیا نئی حکومت پر جارحانہ تنقید سے گریز کرتا ہے جبکہ نئی حکومت بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی ہے تاکہ وہ معاملات کو سمجھ سکے اور مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنی حکمت عملی ترتیب دے سکے۔
مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی حکومت کی ناقص کارکردگی کو بنیاد بنا کر الیکشن لڑا۔ اس کے انتخابی منشور کے اہم نکات معیشت کی بحالی، توانائی کے بحران اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، دہشتگردی پر قابو پانا اور غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنا تھا!!ان انتخابی و عدوں کی بنیاد پر مسلم لیگ(ن) کو کامیابی ملی اور اس نے مرکز اور پنجاب میں بآسانی اپنی حکومت بنائی!!
آج مسلم لیگ(ن)کی حکومت قائم ہوئے ابھی ایک مہینہ پورا نہیں ہوا۔
ان 30دنوں میں نئی حکومت ا بھی سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ اسے ایک نامقبول بجٹ دینا پڑا جس میں ایک فیصد جنرل سیلز ٹیکس کے اضافے سے ہر طرف مہنگائی پھوٹ پڑی ہے۔ابھی بجٹ کا قضیہ برقرار ہے کہ وہ ماضی کے دو پھڈوں میں الجھ گئی ،پہلا پھڈا جنرل مشرف پر غداری کا مقدمہ، جبکہ دوسرا صدر زرداری کے سوئس اکاؤنٹس کا مقدمہ ہے۔ دونوں مقدمات کو کھولنے میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت کا اگرچہ براہ راست کوئی دخل نہیں لیکن اس کے سیاسی اثرات بہرحال میاں نواز شریف کی حکومت کو ہی برداشت کرنے ہوں گے،دونوں معاملات اس مرحلے پر بہت سادہ نظر آتے ہیں مگر جونہی ان پر عدالتوں اور میڈیا میں بحث شروع ہوئی، وہ گرد اڑے گی کہ الامان ، الحفیظ!”ماں،اپنے پتر کو نہیں سنبھال پائے گی۔
اپنی پوری ہمدری مسلم لیگ(ن)کی حکومت کے ساتھ ہے۔ اسے پورا موقع ملنا چاہئے کہ وہ اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے ملک اور عوام کو درپیش سنگین مسائل حل کرسکے۔ ملک سے لوڈ شیڈنگ کے اندھیرے بھگا سکے، معیشت بحال کرسکے، بجٹ کا خسارہ کم کرسکے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرسکے۔ دہشتگردوں کو نکیل ڈال سکے، ڈرون حملے بند کراسکے، عالمی برادری میں پاکستان کی عزت کراسکے وغیرہ وغیرہ، مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ ماضی کے قبرستان سے مردے اٹھ اٹھ کر ن لیگ پر حملہ آور ہوتے رہیں گے اور حکومت کو حال اور مستقبل کے مسائل حل
کرنے کے بجائے ماضی کے مسئلوں میں الجھا رہنا پڑے گا، مثلاً آنے والے کسی دن میاں نواز شریف کی حکومت کو یہ فیصلہ بھی کرنا پڑے گا کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر مبنی ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے یا اسے بھی حمود الرحمن رپورٹ کی طرح ماضی کے اندھیروں میں دفن رہنے دیا جائے۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو پیش کی گئی تھی۔ راجہ صاحب اس سربمہر پیکٹ کو چھونے کے ضرور گنہگار تھے ، اس میں موجود رپورٹ کو پڑھنے کے روادار نہ تھے۔ امکان ہے کہ یہ رپورٹ آج بھی اسی طرح کسی مہر بند پیکٹ میں ایوان وزیر اعظم کے کسی طاق پر دھری ہوگی۔ اس رپورٹ میں سانحہ ایبٹ آباد( جس میں امریکیوں نے پاکستان کے اندر گھس کراسامہ بن لادن کو مارا تھا) میں کس کس کو حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے؟یہ ابھی تک ایک راز ہے، یہ راز کھلے گا تو نجانے کیا کیا قیامتیں برپا ہوں گی۔امکان تو یہ بھی ہے کہ کسی دن اچانک ”میموگیٹ سیکنڈل“ کا مردہ بھی جاگ اٹھے گا اور سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔NABکے برطرف چیئرمین فصیح بخاری جاتے جاتے ماضی کے ”کچھ مقدمات“ کو کھولنے اور چلانے کی ہدایت کرگئے ہیں ۔نئے چیئرمین نے بھی اسی ہدایت پر عمل کیا تو پھر کیا ہوگا؟ماضی کے بھوت اپنی جگہ…مستقبل کے مسائل بھی اژدھوں کی طرح منہ کھولے نئی حکومت کے منتظر ہیں۔ ستمبر میں نئے صدر کا انتخاب ایک آدھ ماہ بعد نئے آرمی چیف کا تقرر اور پھر نئے چیف جسٹس کی تعیناتی۔ یہ اگرچہ انتظامی مسائل ہیں مگر ان فیصلوں کے نتیجے میں نئے تنازعات بہرحال جنم لیں گے، یہ کوئی پیش گوئی نہیں، ماضی ہمیں یہی بتاتا ہے۔تضادات اور طبقات کے شکار پاکستانی معاشرے پر حکومت کرنا، شیر پر سواری کے مترادف ہے۔ مسلم لیگ (ن)نے بہت دعوؤں کے ساتھ الیکشن جیتا مگر بہت تیزی کے ساتھ تنازعات کی دلدل میں اترتی دکھائی دیتی ہے، ہم نئی نویلی حکومت کے لئے ہمدردی اور دعاؤں کے ساتھ بقول میر تقی میر یہی کہہ سکتے ہیں