• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی معاشرہ اس وقت دو طرف سے یلغار کا شکار ہے!
ایک طرف حکمران طبقہ اشرافیہ ہے، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں مقیم اس طبقہ اشرافیہ میں پشتینی زمیندار، پیر، جاگیردار اور سردار شامل ہیں اور تاجر پیشہ سیاست دان بھی، سول بیورو کریسی اس کا حصہ ہے تو فوجی بیورو کریسی بھی، عدالتیں، مذہبی پیشوا اور میڈیا… سب اسی حکمران طبقہ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کرتے ہیں، طبقہ اشرافیہ کو طبقہ اناث سے کوئی دلچسپی نہیں، وہ محض دولت کے ارتکاز میں دلچسپی رکھتا ہے، اسفل انسان اس طبقے کے لئے قرون وسطیٰ کے غلاموں سے بھی بدتر ہیں!
دوسری طرف انتہا پسندوں کا ایک گروہ مذہب کی آڑ لے کر ریاستی وسائل پر از خود قابض ہونا چاہتا ہے، اس طبقے نے، طبقہ اشرافیہ کی طرف سے معاشرے میں پھیلائی معاشرتی ناہموار اور وسائل کی لوٹ مار اور غربت سے جنم لیا ہے، سیاسی جدوجہد کے کٹھن راستے پر جانے کی بجائے، ان لوگوں نے آسان رستہ اپنایا، مذہب کے نام پر جہاد، قتال، دہشت اور جبر کے ذریعے طبقہ اشرافیہ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ ملک کے 90 فیصد علاقے میں محرومی اور جہالت اس گروہ کی طاقت بن گئی ہے۔ اب ریاستی بندوق بردار اور مذہبی بندوق بردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ ریاستی بندوق بردار جیتیں گے تو طبقہ اشرافیہ اور مضبوط ہو گا، عوام بھوک اور مہنگائی کے ہاتھوں مریں گے، مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے جیتیں گے تو لوگ گولی سے مریں گے… مریں گے دونوں صورتوں میں!!
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب معاشرے ایسے گردابوں میں پھنس جائے تو ”مڈل کلاس“ اپنا کردار ادا کرتی ہے، شعوری جدوجہد کر کے، عوام کو ”موبلائز“ کر کے، انہیں اکٹھا کر کے، اجتماعی رویے اور آراء تشکیل دے کر، مگر پاکستان میں مڈل کلاس خود اپنی زندگی کی سانسیں لے رہی ہے۔ گزشتہ 63 سال میں ہونے والی ”آمرانہ“ اور ”سیاسی لوٹ مار“ نے امیر طبقے اور محروم طبقے کے درمیان خط غربت کو پاکستان بھارت کا کاروبار بنا دیا ہے کہ جو کوئی پار کرنے کی کوشش کرے گا، دونوں طرف سے گولی کھائے گا۔ پاکستانی مڈل کلاس جو کبھی بہت توانا تھا، اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے، اس لئے معاشرتی محرومیوں او رناانصافیوں کے خلاف جنگ کیسی… میدان کھلا ہے، طبقہ اشرافیہ کی محافظ ریاستی قوتوں اور مذہب کے نام پر جدال و قتال کرنے والوں کے درمیان! امید کچھ نظر نہیں آتی، شاید اسی لئے عمران خان نے بھی اس بات کی تائید کی ہے کہ اگر حالات نہ بدلے تو امت مسلمہ کا Titanic ڈوبے ہی ڈوبے!
بات کچھ اور کہنی تھی مگر پھیلتے پھیلتے کہیں اور نکل گئی۔ مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اس وقت پاکستانی اشرافیہ کی کشتی کے ملاح ہیں۔ خود تو وہ صاحب ثروت ہیں ہی، ملک کے اربوں کھربوں کے بجٹ کی تقسیم بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔ میاں شہباز شریف پر ایک الزام یہ بھی لگتا رہا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران انہوں نے لاہور میں 31 ارب روپے سے میٹرو تو بنا دی مگر پورے جنوبی پنجاب کے لئے صرف دس ارب روپے رکھے۔ اب کے سنا ہے (ابھی از خود بجٹ دستاویزات نہیں دیکھیں) کہ انہوں نے اس الزام کو مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے لئے 90ارب روپے مختص کئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ 90ارب روپے جنوبی پنجاب میں کس طرح تقسیم ہوتے ہیں!وزیراعلیٰ پنجاب کی توجہ جنوبی پنجاب کے ہی ایک محروم علاقے کی طرف دلانا چاہتا ہوں! یہ ہے 66 لاکھ ایکڑ پر پھیلا ہوا علاقہ روہی اور چولستان، جی ہاں! خواجہ فرید کا چولستان، جس کا زیادہ تر حصہ آج کل عرب شیوخ اور رینجرز کے قبضے میں ہے۔ جی ہاں! وہی چولستان جس میں جنرل ضیاء الحق سے اب تک فوجی جرنیلوں اور بااثر سویلین لوگوں کو سرسبز رقبے مفت میں الاٹ کئے جا رہے ہیں، اسی روہی اور چولستان میں خواجہ فرید نے زندگی کے 18 سال قلعہ دراوڑ سے 8 کلو میٹر ایک ٹوبے پر بیٹھ کر گزار دے۔
میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں، میڈا ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں، میڈی روح وی توں
میڈا قلب بھی توں، جند جان بھی توں
………………
میڈا ملک ملہیرتے مارو تھلڑا
روہی، چولستان وی توں
اس روہی کے اردگرد وزیراعلیٰ نے کئی دانش سکول کھولے ہیں مگر ان میں روہی کے اندر رہنے والے کسی روہیلے کا ایک بچہ بھی داخل نہیں ہو سکا۔ چولستان کی چار یونین کونسلوں میں پنجاب حکومت نے 2010ء میں کمیونٹی سکول قائم کئے تھے جسکے لئے سالانہ ایک کروڑ 20 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا، مگر جتنے سکول قائم ہوئے، وہ سب Make Shift تھے، کوئی درختوں کے نیچے، کوئی تنبو کے نیچے، اس میں پڑھانے والی استانیوں کو (جن میں ایم اے لڑکیاں بھی شامل تھیں) محض 5 ہزار اور جونیئر استانیوں کو صرف 3ہزار تنخواہ ملتی تھی (ہے نا یہ عظیم معاشرے کی ایک روشن مثال) پھر بھی استانیاں میلوں دور سے آ کر پڑھاتی ہیں اور ہزاروں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اب سنا ہے کہ تخت لاہور کے ایئرکنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھنے والے اور لاکھوں روپے تنخواہ پانے والے ”بابو“ روہی اور چولستان کے بچوں کا یہ واحد وسیلہ علم بھی بند کر رہے ہیں، استانیوں کو تنخواہیں نہیں مل رہیں!!آخر کیوں؟یہ سوچنا پنجاب کے وزیراعلیٰ کا کام ہے جن کو اربوں کے پراجیکٹ بنا کر تو بہت خوشی ملتی ہے، دانش سکول بنا کر وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کی روشنی ہرسوپھیل چکی! مگر روہی اور اس میں بسنے والے روہیلوں کے سکول بند ہو گئے تو شاید کسی کی صحت پر کچھ فرق نہ پڑے… مگر ریاستی قوتوں کے خلاف لڑنے والے لشکر کو کچھ اور سپاہی میسر آ جائیں گے!
ہے کوئی… جو غور کرے اور پھر عمل بھی!!
تازہ ترین