• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راولپنڈی رنگ روڈ بدقسمت منصوبہ ہے جو شروع ہونے سے قبل ہی ’’مالیاتی اسکینڈل ‘‘کا شکارہو گیا گزشتہ 30سال سے اقتدار کے ایوانوں میں رنگ روڈ کی باز گشت سنائی دیتی رہی لیکن یہ منصوبہ ماضی کی حکومتوں کی ’’فائلوں‘‘ میں رہا لیکن اس کو عملی شکل نہ دی جا سکی۔ 2017ء کی بات ہے سابق وزیر اعظم نواز شریف ایک پاور پلانٹ کا افتتاح کرنے گئے تو وہاں صحافیوں سے بات چیت کے دوران سینئر صحافی طارق محمود سمیر نے میاں نواز شریف کی توجہ راولپنڈی رنگ روڈ کے ’’مردہ منصوبہ‘‘ کی طرف مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ’’جناب وزیر اعظم ! آپ نے پورے ملک میں ترقیاتی منصوبوں کو شروع کر رکھا ہے لیکن راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ سالہاسال سے ’’سرد خانہ‘‘ میں پڑا ہے۔ اس منصوبہ کو ٹیک اپ کیا جائے۔‘‘ جس پر نواز شریف نے کہا کہ ’’راولپنڈی کے کسی نمائندے نے اس منصوبہ کی طرف توجہ ہی مبذول نہیں کرائی‘‘۔ انہوں نے اسی وقت کمشنر راولپنڈی کو اس منصوبہ کا بلیو پرنٹ تیار کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

2017ء میں ہی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے’’نیسپاک ‘‘ سے بانٹھ موڑ سے ڈھلیاں 33کلومیٹر پر مشتمل رنگ روڈ کا منصوبہ تیار کر ا لیا چینی بنک نے اس منصوبہ کے لیے فنانس کی یقین دہانی کرادی لیکن یہ منصوبہ نواز شریف کی حکومت کے عدم استحکام کا شکار ہونے کی وجہ سے شروع نہ ہو سکا۔ 2019ء میں ’’تبدیلی سرکار‘‘ نے اس منصوبہ کا کنسلٹنٹ ہی تبدیل کر دیا اور اس کی جگہ ایک’’ زیرک ‘‘ کو کام سونپ دیا۔ اب اس منصوبہ کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحفظات پر ایم -2 -کی بجائے ۱یم 1-سے منسلک کرنے کی منظوری دے دی گئی تو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے روزانہ 33ہزار بھاری گاڑیوں کو موٹر وے سے گزرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ اب معلوم نہیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے کس کے اشارے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا یا اس نے اصولی طور پراپنے تحفظات کا اظہار کیا‘ بہرحال اس کے بعد ہی اس منصوبہ کو اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ تک پھیلا دیا گیا۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کے عقب سے سنگ جانی تک نیا روٹ بنایا گیا اس دوران’’ زیرک‘‘ کی بھی چھٹی ہو گئی اور دوبارہ ’’نیسپاک ‘‘ کو کام دے دیا گیا‘ اس منصوبہ پر 9 انٹر چینج ریڈیو پاکستان روات ، چک بیلی خان ، ہو شیال ، اڈیالہ ، چکری ، مورت ، دولت پور ، سنگ جانی تجویز کئے گئے‘ اس طرح یہ منصوبہ 33کلومیٹر سے 66 کلومیٹر سے تک پھیل گیا لا محالہ منصوبہ کی طوالت بڑھنے سے اس لاگت بھی دو گنا بڑھ گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت ہونے والے اجلا س میں پی سی ون میں معمولی ردوبدل کیا گیا اجلاس میں 25محکموں کے افسران کی موجودگی میں اس کی منظوری حاصل کی گئی پھر یہ منصوبہ وزیر اعظم عمران خان کی میز پر آگیا۔ وزیر اعظم نے رنگ روڈ کے ساتھ اسلام آباد کو منسلک کر دیا اور ہدایت کر دی کہ اس کا اسلام آباد کا ایریا سی ڈی اے بنائے گا راولپنڈی ایریا کے 32 مواضعات کی اراضی جو 6603کنال بنتی ہے اس کاا یوارڈ ایک اعشاریہ سات بلین روپے ہوا جس میں سے 40، 45کروڑ روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہے جب کہ ایوارڈ کا ٹوٹل رقبہ حکومت پنجاب / آر ڈی اے کے نام منتقل ہوچکا ہے دوسرا ایوارڈ اٹک ایریا تحصیل فتح جنگ کے 10مواضعات کی اراضی ہے جو 4407کنال ہے اس کی رقم تین اعشاریہ چار بلین روپے بنتی ہے جس میں سے58فیصد کی ادائیگی ہو چکی ہے تمام اایوارڈ شدہ اراضی حکومت کے نام پر منتقل ہو چکی ہے تحصیل ٹیکسلا کے3مواضعات ہیں جن کا سیکشن 4ہوچکا ہے مزید کوئی کارروائی نہیں ہوئی اسلام آباد کا ایک موضع ہے جس پرسیکشن 4 کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی راولپنڈی رنگ روڈ کے راولپنڈی ایریا کے متاثرین کے صدر فیاض سید کا کہنا ہے کہ راولپنڈی کو معاوضہ کم دیا جارہا ہے جب کہ اٹک کو نوازا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب نے 66کلو میٹر پر محیط رنگ روڈ کے منصوبہ کو ڈراپ کر دیا ہے اور اس کی جگہ روات سے ڈھلیاں موٹر وے پر کام شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے اس طرح وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی جو راولپنڈی رنگ روڈ کے منصوبہ کو اٹک تک لے گئے تھے جہاں ان کے عزیز و اقارب کی ہزاروں کینال اراضی ہے اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ کے نام پر حاصل کی گئی اراضی کی ادا کی گئی رقم کی واپسی بڑا مسئلہ ہے یہ اراضی 1884ایکٹ کے تحت حاصل کی گئی ہے جو اس کی شق 54کے تحت ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ہی واپس لی جا سکتی ہے ماہرین کی رائے ہے سنگ جانی منصوبہ قابل عمل تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کمشنر راولپنڈی اور راولپنڈی و اٹک کے ڈپٹی کمشنرز و اسسٹنٹ کمشنرز کو اس منصوبہ کی تیاری کا ذمہ دار قرار دے کران کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا لیکن معطل سب سے نچلے درجے کے افسر ’’لینڈ ایکوزیشن کلکٹر ‘‘ کیا گیا جو ضلعی سطح پر قیمت کا تعین ، ڈیزائین ، لوپ یا پراجیکٹ کمیٹیوں کا رکن ہی نہیں ، اس طرح موردِ الزام اس افسر کو ٹھہرا دیا گیا جس نے کنسلٹنٹ کی طرف سے لگائی گئی ’’ بتیوں ‘‘ کے مطابق منظور کردہ رقم کی ادائیگی کی ہے ۔

نوجوان صحافی عمران اصغر، جو راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل پر کام کر رہے ہیں، نے بتایا ہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ جو راولپنڈی پر ٹریفک کا دبائو کم کرنے کا بڑا منصوبہ تھا شروع ہونے سے قبل ہی اسکینڈل کا شکار ہو گیا 14اپریل 2021کو اس منصوبہ کا ٹینڈر ایوارڈ ہونا تھا لیکن ٹینڈر ہونے سے ایک ہفتہ قبل7اپریل 2021ء کو بد عنوانی کی شکایات موصول ہونے پر روک دیا گیا اب منصوبے کے بارے میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی گئی جس کی سفارشات پر ایک طرف محکمانہ انکوائری ہو رہی ہے دوسری طرف اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ بھی تحقیقات کر رہا ہے کمشنر راولپنڈی گلزار حسین نے اپنی رپورٹ میں اس منصوبہ کو اہم شخصیات کا گٹھ جوڑ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ان 19ہائوسنگ سوسائٹیوں کو نوازا جانا تھا جن کی زمینوں سے رنگ روڈ نکالا جانا تھا۔ اس رپورٹ سے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور اسسٹنٹ کمشر نے اختلاف کیا اور کہا کہ اس منصوبہ کی تمام متعلقہ فورمز سے منظوری حاصل کی گئی یہ رنگ روڈ جس علاقے سے گزاراجائے گا وہاں ہائوسنگ سوسائٹیوں کو فائدہ ہو گا۔ بظاہر راولپنڈی رنگ روڈ میں کسی پر کرپشن کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا لیکن اس میں اس بات کے اشارے دئیے گئے ہیں کہ 8ارب روپے کی اراضی کی مشکوک خریداری کی گئی ہے۔ بعض ہائوسنگ سوسائٹیوں کے پاس اتنی زمین نہیں تھی جتنی انہوں نے فائلیں فروخت کر دی ہیں اس منصوبہ پر ابتدائی لاگت کا تخمینہ 56ارب تھا جس میں سے 16ارب روپے حکومت پنجاب نے ادائیگی کرنا تھی 40ارب روپے پرائیویٹ پارٹنر شپ سے حاصل ہونا تھے جن سے 25سال تک ٹول ٹیکس وصول کرنے کا معاہدہ کیا جانا تھا منصوبہ اسکینڈل کا شکار ہونے کے بعد شاید ہی پایہ تکمیل کو پہنچے۔ پی ٹی آئی کی حکومت میں شامل کچھ بڑوں کی باہمی لڑائی کی وجہ سے یہ منصوبہ اسکینڈل کا شکار ہوا۔

تازہ ترین