دنیا بھر میں زیادہ تر شہردریا ؤں کے کنارے آباد ہوئےجہاں نئی تہذیبوں نے جنم لیا ۔ دریائے سندھ کے کنارے بھی آبادیاں قائم ہوئیں۔جب بستیاں بسائی گئیں تو عمارتی لکڑی کے علاوہ ،ایندھن کے طور پر جلانے کے لیے بھی لکڑی ضرورت پیش آئی۔ پختہ اینٹیں بنانے کے بھٹے میں بھی لڑیوں کی ضرورت تھی جو یہاں وافر مقدار میں دستیاب تھیں۔وادی سندھ کےباسی پکی اینٹوں سے مکان بناتے تھے جب کہ سفری ذرائع کے طور پربیل گاڑياں تھیں، وہ چرخے اور کھڈی سے کپڑا بنتے تھے، مٹی کے برتن بنانے کے ماہر تھے، کسان، جولاہے، کمہار اور مستری اس دور کے ہنر مند افراد تھے۔
قدیم زمانے میں ذرائع نقل و حمل اورمواصلاتی ذریعہ صرف بحری راستوں کا مرہون منت تھا، یہاں تک کہ تجا رتی سامان کی ترسیل بھی دریائی راستوں سےہوتی تھی۔نظریہ ضرورت کےکلیہ کے تحت دریائے سندھ کے کنارے جو شہر آباد ہوئے، دریا کے رخ تبدیل ہونے کے ساتھ ان کی جگہ اور مقام بھی بدلتے رہے۔ وادی مہران اس قدیم دریا ’’ ہاکڑو ‘‘ پر آبادہوئی تھی۔ یہ دریا قدیم دور میں سندھ کے مشرق کی طرف سے نکلتا تھا اور ما تھیلو ( مو مل جی ماڑی )چیچڑو ،اروڑحالیہ روہڑی اور عمر کوٹ سے ہو تا ہوا دیبل تک جا تا تھا ۔ سندھ کے قدیم تہذیبی ورثے اور بستیوں میں “چیچڑو” کا نام بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے۔
مؤرخین نے لکھا ہے کہ چیچڑو را ئے حکمرا نوں کے دور میں ماتھیلو اور اروڑ ( جہاں را جہ دا ہر کا قلعہ اور قدیمی مسجد محمد بن قاسم کے آثار ابھی تک مو جود ہیں ) کو باہمی مربوط کرنے والی با د شاہی سڑک پر ایک منزل تھا د۔ اس شہر کے قریب خوں ریز جنگ لڑی گئی تھی۔ما تھیلو کے قلعے سے جب مجا ہد خان کا لشکر ابو الخیر گورنر اوربکھر سے سلطان محمود کو کلتاش کی قیادت میں چیچڑو پر قبضہ کرنے کے لیے نکلا تواس شہر کے حاکم، محمود خان کا بھا ئی سلطان زین العا بدین چیچڑو کے با لا ئی حصہ لنجواری کے مقام پران کے مقابلے پر آیا۔ اس جنگ میںسیکڑوں لوگہلاک ہوئےجب کہ زین العابدین شکست کھاکر وہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔مرنے والے افراد کی تدفین چیچڑو میں کی گئی ۔
جنگ کے خاتمے پر مجا ہد خان ماتھیلو سے چیچڑو کی طرف جانے والی والی سڑک کے ذریعے ’’پہنواری‘‘ سے کشتیوں کے زر یعے دریا پار کر کے بکھر پہنچے۔ چیچڑو 1940 ء سے قبل ایک تجا رتی مر کز تھا جس کے آثار ابھی تک موجود ہیں، جن میں مٹی سے تعمیر کی گئی قدیم عمارتیں اور با زار شامل ہیں۔ اس شہر میں ہندو بھی بڑی تعداد میں آباد تھے،جن کی اکثریت اورنگ زیب کے زما نے میں مسلمان ہو ئی تھی لیکن ان کےرسم و رواج میں مسلمان ہونے کے بعد بھی ہندووانہ تہذیب کی جھلکیاں نمایاں طور سے موجود تھیں۔
ان نو مسلم افراد کوشعائر اسلامی ، سے روشناس کرانے کے لیے حضرت مولاناتاج محمد امرو ٹی اور ان کے خلفاء نے بڑی جدو جہد کی ۔جب ہندوؤں نے شدی اورسنگھٹن تحریکیں چلائیں تو خدشہ ہوا کہ شاید یہ لوگ دوبارہ ہندو مذہب کی طرف لو ٹ جا ئیںگے لیکن ان علمائے کرام نے اس تحریک کی سخت مزاحمت کی ۔یہاں ایک پرائمری اسکول ہے جس کی قدیمی عما رت مغلیہ طرز تعمیرکی نشاندہی کر تی ہے۔ چیچڑو میں سنت ایسر داس کی مڑھی کے آثار تا حا ل مو جود ہیں اور ایسر داس کی سما دھی پر ایک مقبرہ اور اس کے ساتھ ایک کنواں بھی مو جود ہے۔
اس سما دھی پر سندھ اور ہند کے عقیدت مند کبھی کبھار حا ضری دیتے ہیں۔ یہاں پر مہیسر قوم کا سردار عیسیٰ خان رہتا تھا جس کو مغل بادشاہوں نے سند حکمرانی عطا ہوئی تھی جو کہ ان کے خاندان کے پاس مو جود تھی۔ ان کی بڑی جا گیریں جو سندھ میں کئی مقامات پر موجود تھیں۔کراچی تا لا ہور مین ریلوے لا ئن پر پنوعاقل اور گھو ٹکی کے درمیان مہیسر ریلوے اسٹیشن کا نام بھی مہیسر حکم رانوں سے منسوب ہے۔
اس خا ندان کی تعمیر کردہ ایک قدیم مسجد تا حا ل مو جود ہے جو کہ اس زمانے کی شان و شوکت کی ترجمانی کر تی ہے۔مسجد کی تعمیر میں قدیم طرز کی تعمیرات کی جھلکیاں موجود ہیں، تا ہم اس کی مرمت اور تزئین و آرائش ہوتی رہتی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو تو بھارت چلے گئے لیکن ان میں سے جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے تھے ان کی اولادیںپنو عاقل شہر میں بس گئیں، جو شیخ قوم کے نام سے معروف ہیں۔
چیچڑو کے ساتھ ایک اور تا ریخی قبرستان مو جود ہے ۔ نامور ادیب اور محقق پرو فیسر سر ور سیف ، پرو فیسرغلام مر تضیٰ کلوڑ اور فضل اللہ مہیسر کی را ئے کے مطابق ، اس قبرستان کی بنیاد جنگ میںہلاک ہو نے والےافراد کی تدفین سے ہوئی تاہم اس میں کئی اولیا ئے کرام اور بزرگان دین بھی مدفون ہیں۔ با دشاہی سڑک جو کہ ہا کڑو در یا کے جنوب میں گزرتی ہے ، یہاں پرکسی ذور میں بحری بیڑے لنگر انداز ہو تے تھے۔
بندرگاہ کےآثار ابھی بھی مو جود ہیں ۔بند ر گاہ کے قریب باریک اینٹوں سے تعمیر کی گئی قدیم دور کی مسجدکےآثار بھی نظر آتے ہیں۔ اس میں مو جود دو ترا شیدہ سنگ تقریباًڈھائی فٹ اونچے ہیں جو کہ لکڑی کے ستونوں کے نیچے نصب تھے تا کہ مٹی اور دیمک وغیرہ سے لکڑی کا بچا ئو ہو سکے ۔ دریا کی سطح سے دس فٹ کی بلندی پرایک اور قبرستان ہے اورجس کی بلندی پر صحن بنا ہوا ہے۔
تا ریخ معصومی مترجم مخدوم امیر احمد ایڈیشن 2006 ء کے صفحہ نمبر 218 پر لنجواری کے قلعہ کا ذکر ملتا ہے جو کہ بکھر سے ما تھیلو کی طرف 18کو س پر مو جود بتا یا گیاہے ۔یہ قرین از قیاس ہے تا ریخ معصومی میں مذکو رہ قلعہ نے قبرستان کی صورت اختیار کی ہو جو کہ ایک اونچی جگہ پر دکھا ئی دیتا ہے۔ اس میں معروف صوفی بزرگ ’’باز ید سلطان ؒ ‘‘ حضرت کا تقریبا ً دس فٹ لمبا مرقد موجود ہے ، جس پر خو بصورت اینٹو ں سےتعمیر کیا ہوا ایک مقبرہ بنا ہوا ہے۔مقبرے کا طرز تعمیر اروڑ کے’’ سہا گن‘‘ اور’’ ڈھا گن ‘‘کے مقبروں سے زیادہ مشاہبت رکھتا ہے۔
معروف محقق پرو فیسر غلام مر تضیٰ کلوڑ نے لکھا ہے کہ مقامی آبادی کے مطا بق مرقدپر ایک کتبہ بھی لکھا ہو اتھا لیکن قبور کی اندرونی مرمت کے دوران اس کی ٹو ٹ پھوٹ ہو گئی۔مذکورہ قبرستان کے بالکل نزدیک گا ئوں رو جو مہیسر میں 400 سالہ قدیم مسجد بھی ہے جس کی تعمیر درگاہ سو ئی شریف کے بزرگوں کے حکم پر ہو ئی تھی۔
اس مسجد کی قدامت کے متعلق تنظیم فکر و نظر سندھ کے صدر اور ما ہر تعلیم استاد فضل اللہ مہیسر نے بتا یا کہ ہما رے بزرگ سینہ بسینہ بتا تے آئے ہیں کہ اس کی تعمیر میں صرف اور صرف حفاظ کرام نے با وضو ہو کر اور تلا وت کر تے ہو ئے حصہ لیا تھا ۔ یہ مسجد اپنی قدیم حالت میں مو جود ہے ۔قدیم آثار کے محکمے او ر حکومت کی جانب سے چیچڑو شہر کی جانب سے ہمیشہ عدم توجہی برتی جاتی رہی ہے جس کی وجہ سے اس کے آثار مٹتے جارہے ہیں۔