پنجابی شاعری میں نام کمانے والے احمد راہی مرحوم نے اردو میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کی ایک غزل کے دو اشعار :
کب سے بے خواب ہے اس خواب محل کی بنیاد
کب سے خوابیدہ ہے یہ جاگتے جسموں کی زمیں
پیش از وقت کے اندیشوں سے جاں جاتی ہے
کیا گھڑی ہو گی کہ جب ہم نے بھی آنکھیں کھولیں
خواب محل کی بنیادوں کی بے خوابی اور جاگتے جسموں کی خوابیدگی اگر معروضی تضادات ہیں تو پیش از وقت کے اندیشوں سے لاتعلقی ہماری عادات ہیں۔ پیش از وقت کے اندیشوں سے یہی لا تعلقی آج ہمارے لئے انرجی بحران کی مصیبت بنی ہوئی ہے۔ کل آبپاشی اور پینے کے پانی کا بحران بھی سر اٹھا سکتا ہے اور آبادی میں اضافے کی موجودہ رفتار بتاتی ہے کہ اگلے تیس پینتیس سالوں میں پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ سے بڑھ کر تیس کروڑ ہو جائے گی۔ پیش از وقت کا یہ اندیشہ ہم نے ”خاندانی منصوبہ بندی“ والوں کے سپرد کر رکھا تھا۔
پیش از وقت کے اندیشے کے تحت عوامی چین نے اپنی آبادی پر قابو پانے کی کوشش کی اور ہمارے پڑوسی فخر سے بتاتے ہیں کہ موجودہ صدی کی پہلی چوتھائی عبور کرتے ہوئے ہندوستان کی آبادی عوامی چین سے بڑھ جائے گی اور ہندوستان دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونے کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھی بن جائے گا لیکن یہ سب سے بڑی جمہوریت دنیا کی سب سے بڑی غربت، سب سے بڑی جہالت اور سب سے بڑی مصیبت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جس جمہوریت میں جمہور شامل نہیں ہوتا اور محض جمہوریت کا منہ تک رہا ہوتا ہے وہ انرجی سے محروم معیشت اور لوڈشیڈنگ کی زد میں آئے ہوئے کارخانے کی مثال ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں آبادی میں اضافہ خواندگی میں اضافے سے تین گنا زیادہ رفتار سے بڑھ رہا ہو وہ کسی حالت میں بھی جہالت کے اندھیروں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ جس معاشرے کے اخراجات اس کی کمائی سے زیادہ ہوں گے وہ کبھی سکھ کا سانس نہیں لے سکے گا۔ آج ہی کسی اخبار میں کوئی بچہ گندگی کے ڈھیر سے خوراک کے ٹکڑے تلاش کرتا دکھایا گیا ہے۔ معاشرے کے کسی فرد کو اس کے بارے میں پیش از وقت کا اندیشہ ہونا چاہئے کہ وہ ہوش سنبھالنے کے بعد کیا کرے گا۔کیا اسے کبھی زندگی میں ہوش سنبھالنے کا موقع بھی مل سکے گا یا نہیں؟ اس کا انجام کس حالت میں اور کہاں ہو گا؟ کیا وہ جرائم کی دنیا کا رخ کرنے پر مجبور ہو گا یا اپنے جسم پر بارودی پیٹی باندھنے پر مجبور کیا جائے گا یا پھر وہ غربت کی آخری لکیر سے نیچے غرق ہو جائے گا۔ 37سالوں کے بعد ہماری آبادی میں بارہ کروڑ کا جو اضافہ ہو گا اس میں امیر لوگ کتنے ہوں گے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد کیا ہو گی اور نچلے، زمین پر رینگنے پر مجبور طبقے کے لوگوں کا تناسب کتنا ہو گا؟ سوچتے ہوئے خوف آتا ہے کہ اگر آج آزادی کے چھیاسٹھ سال بعد ہمارے ستر لاکھ بچے تعلیمی اداروں کا رخ نہیں کر سکتے تو دس پندرہ بیس سالوں کے بعد ہماری ناخواندگی اور جہالت کی گہرائی کتنی ہو گی؟ ہمارے خواب محل کی بنیاد کس حد تک بے خواب ہو گی اور جاگتے جسموں کی زمیں کس نوعیت کے خوابوں میں کھوئی ہو گی۔ پیش از وقت کے اندیشوں سے کتنے لوگوں کی آنکھیں کھلیں گی اور کتنے لوگوں کی پیش از وقت کے اندیشوں سے جان جائے گی؟؟ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے چلنے والا نظام ایسے کسی سوال کی بھی اجازت نہیں دیتا۔
’