• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا 28 مئی کی اشاعت میں کالم شائع ہوا جس کا عنوان تھا ’قبرستانوں کی آمدنی میں اضافہ‘۔ اُس پر دوستوں، قدرشناسوں اور بڑی بڑی شخصیتوں کے فون آئے جن میں پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد بھی شامل تھے۔ اُن سے تبادلۂ خیال ہوا، تو کہنے لگے کہ حکومت کی یہ خواہش یقیناً قابلِ قدر ہے کہ وہ مڈل کلاس کو قرضے فراہم کر کے اُن کی زندگی میں بہتری لانا چاہتی ہے، مگر اُسے قرضے 6فی صد شرح سود پر دینے کے بجائے اُن تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے جو میں وائس چانسلر کی حیثیت سے مختلف یونیورسٹیوں میں کر چکا ہوں اور اُن کے نہایت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ میں نے پروفیسر نیاز احمد صاحب کے بارے میں معلومات آئی پیڈ سے حاصل کیں۔ معلوم ہوا کہ وہ 2009 سے 2014تک نیشنل ٹیکسٹائل یونیورسٹی فیصل آباد میں ریکٹر کے طور پر تعینات رہے۔ اِس یونیورسٹی کے طلبہ سے ہماری ملاقاتیں رہیں اور اُنہوں نے گواہی دی کہ پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے حالات سدھارنے میں اہم حصّہ لیا تھا۔ اِس کے بعد وہ انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی ٹیکسلا کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ وہاں اُنہوں نے روزگار کا بھکاری بنانے کے بجائے روزگار فراہم کرنے والے طلبہ تیار کیے۔ جون 2018میں اُن کا انتخاب پاکستان کی سب سے قدیم اور عظیم پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے طور پر ہوا۔ اِسی دوران وُہ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے بھی قائم مقام وائس چانسلر کی اضافی ذمےداریاں ادا کرتے رہے۔ اِس طرح اُن کا دامن مختلف النوع تجربات سے بھرا ہوا ہے۔

میں اُن کے مشاہدات کی دلآویز داستان سننے کے لئے اُن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ٹیکسلا یونیورسٹی میں دس ہزار طلبہ انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ وہاں میں نے طلبہ کے اندر اعتماد کی روح پھونکتے ہوئے اُن کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی تربیت دی جس کے لئے اُنہیں بلاسود قرضے فراہم کیے۔ پروگرام کے تحت طلبہ کے لئے آخری سال کے دوران گروپ کی صورت میں ایک ایسا پروجیکٹ مکمل کرنا لازمی تھا جو علاقے کے کسی مسئلے کی نشاندہی کرتا، اُس کا حل ڈھونڈتا اور پھر اُسے ایک نفع بخش کاروبار کی شکل میں تکمیل تک پہنچاتا۔ طلبہ کے گروپ سے یہ طے کیا جاتا کہ یونیورسٹی اُس پروجیکٹ کے لئے رقم فراہم کرے گی، اُسے واپس کرنے کے علاوہ بزنس کر کے جو نفع کمایا جائے گا، اُس کا نصف یونیورسٹی کو ادا کرنا ہو گا۔ رقم کی واپسی تک یونیورسٹی ڈگری جاری نہیں کرے گی۔ اِس پروگرام نے یونیورسٹی طلبہ میں زبردست جوش و خروش اور تحرک پیدا کر دیا تھا۔ اُن پروجیکٹس کے نتیجے میں بہت ساری اختراعات اور اِیجادات بھی سامنے آئیں، کمیونٹی کے اندر خوشحالی آئی اور یونیورسٹی کے دیے ہوئے قرضے منافع سمیت واپس ہوتے رہے۔ ایک اسٹوڈنٹس گروپ نے اپنے علاقے کی خواتین کو معاشی سرگرمی میں شامل کر کے اُنہیں کپڑے سینے کی مشینیں فراہم کر دیں، چنانچہ چھ ماہ کے اندراَندر خواتین نے اپنی کمائی سے رقم بھی لَوٹا دی اور وُہ مشینوں کی مالک بھی بن گئیں اور مستقل طور پر معاشی سرگرمی جاری ہے۔ طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں سے ٹیکسلا کے ماحول میں خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی اور طلبہ میں یہ اعتماد پیدا ہوا کہ وہ اپنے علاوہ دُوسروں کو بھی روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔ حکومت اگر یونیورسٹیوں کی معاشی حالت بہتر بنانے پر توجہ دے، تو نوجوانوں کی ایک ایسی بڑی کھیپ تیار ہو سکتی ہے جو پاکستان کا مستقبل کم وقت میں درخشندہ بنانے کی اہلیت سے مالامال ہو گی۔ دراصل کوئی بھی قوم تازہ افکار سے ترقی کرتی اور نئی نئی منزلیں دریافت کرتی ہے۔ میں حیرت کی تصویر بنا اُن کی حوصلوں کومہمیز لگانے والی باتیں سنتا رہا۔

وہ نہایت سادہ الفاظ میں اپنے تجربات کی روداد بیان کر رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ہمارا مسئلہ گڈگورننس کا فقدان ہے۔ مَیں تین برسوں سے پنجاب یونیورسٹی کے معاملات گڈگورننس کے اعلیٰ اصولوں کے مطابق چلا رہا ہوں جس کے نہایت خوشگوار نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اچھا نظم و نسق سات اصولوں پر مبنی ہے جن میں میرٹ کی پاسداری، مکمل غیرجانبداری، قانون کی حکمرانی، بےلاگ دیانتداری، مشاورت سے فیصلہ سازی اور ہر شخص کیلئے یکساں انصاف اور مواقع کی فراہمی شامل ہیں۔ میں خود بھی اِن اصولوں پر چلنے کی کوشش کرتا ہوں اور اِنتظامیہ اور اَساتذہ کو بھی اِن کی پاسداری کی تلقین کرتا رہتا ہوں۔ میں نے جون 2018میں وائس چانسلر کا منصب سنبھالتے ہی اساتذہ کے ساتھ طویل تبادلۂ خیال کیا۔ اُنہیں یقین دلایا کہ یونیورسٹی کی قیادت تعلیم و تحقیق کے فروغ اور مسلمہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں اُن کا پوراپورا ساتھ دے گی۔ اُن سے عہد لیا کہ وہ بھی یونیورسٹی کا معیار بلند کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔ الحمدللہ ہم سب مل کر اپنی یونیورسٹی کو بین الاقوامی رینکنگ میں لانے کیلئے شب و روز کام کر رہے ہیں۔ اِن کاوشوں کے نتیجے میں دنیا کے معتبر میگزین ’ٹیچر‘ کے مطابق تین سال کی قلیل مدت میں ہماری یونیورسٹی 75 فی صد کے مقابلے میں دنیا کی 63فی صد ٹاپ یونیورسٹیوں میں شامل ہو گئی ہے۔

گڈگورننس کے اصولوں کے ساتھ وابستگی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اساتذہ کا مائنڈسیٹ بڑی حد تک تبدیل ہو گیا ہے اور وہ پنجاب یونیورسٹی کو بین الاقوامی سطح پر عظیم تر درجہ دلانے کے لئے علمی جدوجہد کر رہے ہیں۔ طلبہ میں بھی بڑی یکسوئی پائی جاتی ہے کہ تمام داخلے آن لائن ہوتے ہیں اور ہر طالبِ علم کا وڈیو ریکارڈ محفوظ ہے۔ اُن کے اندر شہری اور قومی شعور کی پرورش پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ پروفیسروں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور فیکلٹیز کی ری اسٹرکچرنگ، رِی ایلوکیشن اورہر مضمون کا نصاب جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے سے علم و تحقیق کے معیار میں عمدگی آ رہی ہے۔ تمام فیصلے قواعد و ضوابط اور اَعلیٰ روایات کے مطابق کیے جاتے ہیں۔ اختلافِ رائے کا احترام ہم سب پر لازم ہے اور میرے دروازے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لئے کھلے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھ رہی اور فکری راہنمائی کا فریضہ ادا کر رہی ہے۔ مجھے جو اختیارات سونپے گئے ہیں، میں اُنہیں مقدس امانت سمجھتا ہوں۔ اِسی طرح ہماری ریاست کے رکھوالے بھی اگر گڈگورننس کے اصول اپنا لیں، تو نظریاتی، سیاسی اور معاشی استحکام قوم کے قدم چومے گا۔

تازہ ترین