میرے والد کے پاس مجھے پڑھانےکےلئے پیسے نہیں تھے، لیکن اُن کی خواہش تھی کہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کروں سو انہوںنے اپنی زمین فروخت کرکے مجھے پڑھایا اور اعلیٰ تعلیم کے لیےبیرون ملک پی ایچ ڈی کرنے بھیج دیا۔جب میں واپس آیا توسوچ رہا تھا بہت اچھی ملازمت مل جائے گی لیکن یہ میری سوچ تھی۔ کافی عرصہ ملازمت کےلئے دفتروں کی خاک چھانی، پر نوکری نہ ملی۔ لیکن زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا، اس لئے ایک کار سروس اسٹیشن خرید لیا۔
رشتہ داروں نے خوب مذاق اڑایا کہ باہر سے پی ایچ ڈی کر کے آئے ہو اور کام کیا کررہےہو، مگر میں اپنے آپ کو اور گھر والوں کو تسلی دیتا رہا کہ سب بہتر ہو جائے گا۔ سروس ا سٹیشن بہت خستہ حال تھا۔ شیشوں کے بجائے پلاسٹک کا سہارا لیا، تیز و تند ہوائیں آئے روز پلاسٹک اڑا لے جاتیں اور مجھے ہر روز نئے پلاسٹک خریدنے پڑتے۔
چچا زاد بھائیوں کو میرے نئے کام سے کافی دلی سکون ملتا تھا وہ بہت خوش ہوتے تھےکہ اتنا پڑھنے کے بعد بھی گاڑیاں دھو رہاہے۔ مجھے تکلیف پہنچانے کے لیے وہ آئے روز کرائے پرخوبصورت کاریں لاتےجو انتہائی گندی حالت میں ہوتیں اور مجھ سے کہتے ، اچھی طرح دھلوانا ، اگرچہ میرے ساتھ اور بھی لوگ کام کرتے تھے، مگر چچا زاد بھائیوں کی کاریں ہمیشہ میں خود صاف کرتا تھا۔
سخت سردی کا موسم تھا۔ یخ بستہ ہوائیں جسم کے آرپار گزررہی تھیں، میں کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ چچا زاد بھائی آیا، گاڑی کھڑی کی اور صفائی کا کہا۔
میں نے دیکھا گاڑی گوبر، گھاس اور گندگی سے بھری پڑی تھی۔ میرے خیال میں یہ انھوں نےجان بوجھ کیا تھا، تاکہ میں صاف کروں اور وہ دیکھ کر قلبی سکون حاصل کرسکیں۔
میرے ساتھ کام کرنے والے گاڑی کی طرف لپکے، میں نے انھیں منع کردیا اور خود گاڑی صاف کرنے لگا کیوں کے مجھے معلوم تھا کہ وہ تو صرف اس ہی لئے آیا ہے کہ مجھے صفائی کرتے ہوئے دیکھے۔ میں نے بھائی کو بٹھایا اور اس کے لیے چائے کا آرڈر دیااور خود گاڑی دھونے لگا۔
صفائی کرتے کرتے میری آنکھیں بھر آئیں،اسی اثناء چچا زاد بھائی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے آیاور کہا، اچھی طرح صاف کرنا۔اگر سچ پوچھیں تو اُس وقت میری حالت بہت ہی تھی، مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ بھائی کے امیدوں پر پانی پھیروں۔ میں نے گاڑی صاف کر کے دی تو چچا زاد طنزیہ مسکراتا ہوا چلا گیا۔
چند دنوں کے بعد ایک نوجوان گاڑی لے کر آیا۔ میں نےکار اچھی طرح دھوئی، کار کا مالک کافی بے چین اور پریشان لگ رہا تھا۔
میں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟
نوجوان نے کہا، میں طالب علم ہوں اورکل میرا امتحان ہے اور تیاری نہیں ہوئی۔
عجیب بات یہ تھی کہ وہ معاشیات کا طالب علم تھا اوراتفاق سے میں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی تھی ۔میں نے پوچھا کس مضمون کا پرچہ ہے؟
نوجوان نے کہا “اکاؤنٹنگ"
میں نے کہا تم سروس اسٹیشن کے روم میں جاؤ میں آتا ہوں۔ میں نے اسے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں پرچے کی تیاری کرادی، وہ بہت خوش ہوا۔ کہا، آپ کی تعلیم کیا ہے؟ میں نے کہا، معاشیات میں بیرونِ ملک سے پی ایچ ڈی کیا ہے۔ وہ بہت حیران ہوا۔ اُس کے چہرے پر کئی سوال تھے۔ میں نے اس کے پوچھنے سے قبل کہا، جب تک زندہ ہوں، کچھ نہ کچھ تو کام کرنا ہوگا۔
اُس نے مجھ سے کہا، آپ اس وقت میرے ساتھ یونی ورسٹی چلیں۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر میرے دوست ہیں۔ میں ان سے بات کروں گا وہ آپ کو ضرور نوکری دیں گے۔ اس کے ضد کرنے پرمیں اس نوجوان کے ساتھ چلا گیا تو اس نے میرے میلے کچلے کپڑے دیکھ کرکہا، کیا کوئی اور کپڑے ہیں آپ کے پاس؟ میں نے کہا نہیں، مجھے پتا ہے نوکری کسی نے دینی نہیں یہ تو بس تم ضد کر رہے ہو، اس لئے تمہارے ساتھ جارہا ہوں۔
گیلے کپڑے زیب تن کئے ہوئے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے آفس میں گیا اور ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔
آفس میں قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا ،مگر میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ اس پر بیٹھوں۔ وائس چانسلر شاید مجھے مستری سمجھے۔
طالب علم نے میری بابت بتایا تو انہوں نے تمسخرانہ نظروں سے مجھے گھورا اور پھرجان چھڑانے کے لیے کہا، تم ڈیمو(انٹرویو طرز کا امتحان) کی تیاری کرو ہم تمہیں کال کریں گے۔
میں نے کہا میں ابھی بھی ڈیموکےلئے تیار ہوں۔وائس چانسلر کو میرا یہ انداز اچھا نہیں لگا، مگر پھر بھی انہوں نے فون اُٹھایا اور سب ٹیچرز سے کہا کلاس روم میں آجاؤ ایک نئے امیدوار کا امتحان ہے۔
وائس چانسلر نے مجھے ایک مارکر دیا میں نے دو مارکر اور مانگے۔ کلاس پوری طرح بھری ہوئی تھی۔ میرے کپڑے دیکھ کر تمام طلبہ ہنس رہے تھے۔ ایک ٹیچر نے کہا، آپ ڈیمو شروع کریں۔
میں نے کہا ،کس موضوع پر؟
ٹیچر نےکہا، آپ کی مرضی۔
میں نے معاشیات کے دس موضوعات بورڈ پر لکھے۔میری خوبصورت لکھائی بورڈ پر کافی بھلی دکھائی دے رہی تھی۔
میں نے ٹیچر سے کہا،ان دس موضوعات میں سے کون سے موضوع پر بات کروں؟
انھوں نے کہا دوسرے نمبر والا موضوع۔
میں نے اس موضوع کو تفصیل سے بیان کیا۔پورا بورڈ بھر دیا. دو ساتھ جوڑے ہوئے بورڈ پر بھی لکھا۔اچانک تالیاں بجنے لگی۔ میں نے مڑکر دیکھاتو پوری کلاس کھڑی تالیاں بجا رہی تھی اور میں ان کے سامنے ، میلے کپڑوں میں کھڑا تھا۔
وائس چانسلر نے کہا! ہاں بھئی بتاؤ کتنی تنخواہ لو گے؟
میں نے کہا، جو آپ مناسب سمجھیں۔
ا مجھے نوکری مل گئی۔ میں نے مشین کی طرح کام کیا۔ سال کے آخر میں مجھے یونیورسٹی سے بہترین ٹیچرکا ایوارڈ ملا، ساتھ تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ اس کے بعد امریکہ یونیورسٹی، فنانس منسٹری ، بین الاقوامی کانفرنسوں اور دنیا میں کئی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کے مواقع ملے۔ میرے والد مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں ۔چچا زاد بھائی میرا بہت احترام کرتے ہیں اور میرے نام کے ساتھ “صاحب” ضرور کہتے ہیں۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوںاور والدین کا جن کی محنت اور کاوش سے آج اس مقام پر ہوں۔
میری نوجوانوں سے ایک درخواست ہے کہ وہ حوصلے بلند رکھیں،کبھی ہمت نہ ہاریں۔ زندگی میں اتار چڑھاو آتے رہتے ہیں۔ ہمیشہ آنے والے کل کےلئے پرُامید رہیں۔ کبھی کوئی کام کرتے ہوئے شرمائیں نہیں، کیوں کہ کام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا، البتہ کام کے طریقے چھوٹے ،بڑے ضرور ہوتے ہیں۔