شہر میں اسٹریٹ کرائم کے دوران شہریوں سے موبائل فون اور پرس چھیننے کے واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں۔ تاہم اب ڈکیتیوں کے دوران شہریوں کو ان کے قیمتی سامان سے محروم کرنے کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں ۔شہر میں مختلف بینکوں کے لاکرز توڑ کر اس میں موجود شہریوں کا قیمتی سامان لوٹنے اور چوری کرنے کے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں کلفٹن کے علاقے زمزمہ میں واقع نجی بینک میں لاکرز سے شہریوں کا قیمتی سامان چوری ہونے کی ایک نوکھی واردات ہوئی جس کا سرا تاحال پولیس کو نہیں مل سکا۔ اس نقب زنی کا انکشاف اس وقت ہوا، جب ایک لاکر کی مالکن تقریباً ڈیڑھ سال بعد بینک آئیں اور انہوں نے اپنا لاکر کھولا تو لاکر میں موجود چیزیں اچانک نیچے گر گئیں۔
جب انہوں نے اسے ٹھیک سے دیکھا تو اس میں موجود طلائی زیورات غائب تھے ۔ واقعہ کی اطلاع بینک مینیجر اور پھر پولیس کو دی گئی ۔ پولیس نے نقب زنی کی واردات کا مقدمہ درج کر لیا ۔مقدمہ الزام نمبر 293/21کلفٹن تھانے میں متاثرہ خاتون انیتا قاضی کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ فیملی کی جانب سے ایک کروڑ روپے مالیت کی جیولری چوری ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ واقعہ کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش کی جارہی ہے۔
تفتیشی پولیس کا کہنا ہے کہ بینک کے تمام راستے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔مبینہ واردات میں بینک کا کوئی ملازم یا لاکر مالکان میں سے کوئی ملوث ہوسکتا ہے، پولیس کے مطابق بینک عملے کو مکمل سی سی ٹی وی ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، تفتیشی پولیس کے مطابق خاتون ڈیڑھ سال بعد اپنا لاکر چیک کرنے بینک گئی تھیں۔
شواہد سے لگتا نہیں کہ لاکر حال ہی میں کاٹا گیا ہے،پولیس کے مطابق ایک سال کی مکمل سی سی ٹی فوٹیجز کا جائزہ لینا پڑے گا، ممکن ہے لاکر خالی کر کے لاکر کو چوٹ مار کر کاٹنے کا عنصر دیا گیا ہو، بینک ملازمین کے بیانات اور فنگر پرنٹ لئے جائیں گے اور لاکر پر بھی موجود فنگر پرنٹ محفوظ کیئے جائیں گے، لاکر مالکن کا دعویٰ ہے کہ لاکر میں 250 تولہ سونا موجودتھا۔
بعد ازاں پولیس کومعلوم ہوا کہ نجی بینک میں خاتون سمیت 8افراد کے لاکر ز کاٹنے کر واردات کی گئی ہے۔ اس حوالے تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی آردرج کرنے کے بعد پولیس کی جانب سے تفتیش کا عمل شروع کیا گیا اور جائے وقوعہ کا موقع معائنہ کیا گیا، تو بینک سے آٹھ لاکرز ٹوٹے ہوئے ملے ہیں ، پولیس کو صرف ڈاکٹر انیتا قاضی کی ایک شکایت موصول ہوئی ، تاہم دیگر سات متاثرہ افراد سے بھی پولیس کی جانب سے رابطہ کیا گیا ہے تاکہ معلوم ہوسکے، وہ لاکر زکسٹمرز کب سے بینک نہیں آئے اور ان کے لاکر ز سےکتنی مالیت کا سامان چوری کیا گیا ہے ۔ تفتیشی ذرائع نے بتایا کہ تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پہلے بھی اس بینک میں ایک واردات کی ایف آئی اے انکوائری کررہی ہے لیکن ایف ائی اے کے جانب سے بھی کسی شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔
تاہم تفتیشی اور متعلقہ اداروں نے بینک کے عملے کوشامل تفتیش کیا ہوا ہے ۔ تفتیشی افسران نے مزید بتایا کہ پولیس ایف آئی اے سے اس واردات کے حوالے سے مدد طلب کرے گی۔پولیس کے مطابق ٹوٹے پائے گئے 7 لاکرز کی فہرست بینک انتظامیہ نے فراہم کردی ہے۔جس کے مطابق لاکر نمبر 158 کے مالک چوہدری حارث، 194 کی مالک فرزانہ داؤد، 196 کے مالک ارشد علی، 197 کی مالک تانیہ، لاکر نمبر 226 کی مالک ذکیہ بیگم، لاکر نمبر 242 کے مالک حامد سموں اور لاکر نمبر 374 کے مالک آزاد اقبال کے شناختی کارڈ پر درج یا فراہم کئے گئے گھروں کے پتوں پر اطلاع بھجوادی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق ان لاکرز کے مالکان سے تفصیلات لی جائیں گی کہ ان کے لاکرز میں کیا کیا قیمتی سامان موجود تھا۔ ان بیانات کی بنیاد پر پولیس تفتیش کو مزید آگے بڑھائے گی۔ ڈیڑھ سال قبل بینک کے مینجر کی مدعیت میں ایک مقدمہ تھانے میں درج کروایا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ بینک کی دو ہارڈ ڈسک چوری کی گئی ہیں۔
تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک حتمی طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آئی ہے تاہم اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ بینک کے اندر کام کرنے والے ملازمین میں سے اس میں کوئی ملوث ہو سکتا ہےاور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پوری منصوبہ بندی کر کے یہ واردات کی گئی ہے۔ڈی آئی جی سائوتھ جاوید اکبر ریاض کا کہنا ہے کہ کیس میں اب تک کوئی بڑا بریک تھرو نہیں مل سکا ہے،پولیس نے بینک انتظامیہ کیساتھ میٹنگ رکھی ہے جبکہ کیس کی تفتیش مختلف زاویوں سے کی جا رہی ہے۔
بہادرآباد میں شہری سے ایک کروڑ روپے لوٹ لیےگئے۔ پولیس نے بتایا کہ بہادرآباد کے علاقے میں بینک سے نصیر نامی شہری ایک کروڑ روپے لے کر اپنی گاڑی میں نکلا تھا کہ چار مینار چورنگی کے قریب اسے چار ملزمان نے اسلحے کے زور پر لوٹ لیا ، پولیس نے واقعہ کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کی اور مختلف سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کیں جس سے ملزمان کی شناخت میں مدد ملی ۔
پولیس نےبعد ازاں واقعہ میں ملوث دو ملزمان نعمت اور نوید کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ملزمان کے قبضے سے تیئس لاکھ پچاس ہزار روپے کی رقم بھی برآمد کی گئی ہے۔پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش میں ملزمان کا کہنا ہے کہ بقیہ رقم میں سے کچھ انھوں نے خرچ کردی جبکہ دیگر دو ساتھی اپنا حصہ لے کر فرار ہوگئے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کے دیگر ساتھیوں کی تلاش میں مختلف مقامات پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔
گلشن اقبال میںواقع بنگلے سے ملزمان ایک کروڑ سے زائد کا سونا، پیسے، ڈالر اور جاتے جاتے کار بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔واردات کا مقدمہ الزام نمبر 782/21زیر دفعہ 397/34مدعی خالد محمود کی مدعیت میں تھانہ گلشن اقبال میں درج کیا گیا ہے۔مقدمہ میں مدعی نے موقف اختیار کیا ہے کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ گھر میں موجود تھا، اچانک تین ملزمان اندر داخل ہوئے اور مجھ پر پستول تان لیا۔ ملزمان نے مزاحمت کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی، ایک ملزم فیملی کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں رہا جبکہ دو کمرے میں چلے گئے۔
مدعی مقدمہ کے مطابق ملزمان نے الماری میں رکھے 80 تولہ سونے کے زیورات، الماری سے 8 ہزار 500 امریکن ڈالر اور 90 ہزار پاکستانی روپے لوٹے، ملزمان نے دوسرے کمرے سے ایک نیا اور ایک پرانا لیپ ٹاپ بھی اٹھالیا۔ مدعی کے مطابق ایک ملزم مسلسل کسی سے رابطے میں تھا، ملزمان جاتے ہوئے کار بھی اپنے ہمراہ لے گئے۔کورنگی میں چھاپے کے دوران دودھ کی دکان کے کیش کاؤنٹر پر پولیس اہلکار ہاتھ صاف کر گئے۔
کورنگی پی این ٹی سوسائٹی میں اسسٹنٹ کمشنر کے دودھ کی دکان پر چھاپے کے دوران پولیس اہلکار نے ہاتھ کی صفائی دکھا دی ، فوٹیج میں دیکھا گیا کہ چھاپے کے دوران دکاندار کے باہر نکلنے کے بعد پولیس اہلکار نے کیش کانٹر میں موجود رقم کا صفایا کیا،سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی، فوٹیج میں اہلکار کو رقم دراز سے نکال کر جیب میں بھرتے ہوئے دیکھا گیا۔
فوٹیج میں اہلکار کا چہرہ واضح دیکھا جاسکتا ہے، واردات میں ملوث اہلکار نیچے گرنے والے نوٹوں کو بھی جمع کرکے لے گیا۔ دکان کے مالک نے کہا کہ چھاپہ مار ٹیم نے پہلے کھڑکی سے اندر گھسنے کی کوشش کی دکان کے ملازم نے ڈر کر گیٹ کھول دیا، پولیس ، کمشنر اور دیگر لوگوں نے اندر گھس کر اندر باہر کی تمام لائٹیں بند کر دیں، پولیس والے نے گلے سے پیسے نکال کر جیب میں ڈالے ،کچھ نوٹ نیچے گرے تھے جو اس نے اٹھا کر جیب میں رکھے جس کی فوٹیج موجود ہے۔ایس ایس پی کورنگی نے ایکشن لیتے ہوئے 4 پولیس اہلکاروں ہیڈ کانسٹیبل طارق عباسی، کانسٹیبل ذیشان ،کانسٹیبل وقار بیگ اور ڈرائیورکانسٹیبل عامر خان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف کورنگی صنعتی ایریا تھانے میں مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔
ڈرگ روڈ کے قریب کچرا چننے والے افراد میڈیکل اسٹور کے تالا کاٹ کر میڈیکل اسٹور کا صفایا کرکے فرار ہو گئے ۔ واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظرعام پر آ گئی۔ فوٹیج میں دو ملزمان کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ملزمان تالے توڑکردکان میں داخل ہوئے،ملزمان ٹارچ کی مدد سے کیش،قیمتی چیزیں تلاش کرتے رہے جس کے بعد ملزمان کیش اوردیگر سامان لوٹ کر فرار ہوگئے۔
سچل کے علاقے میں دومسلح ملزمان کباڑی سے نقدی چھین کر فرار ہونے سے قبل پولیس کو اطلاع دینے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے گئے۔ سچل تھانے کی حدود سپارکو روڈ پرواقع سیتا نگر شہید ذوالفقارعلی بھٹو سٹی میں واقع کباڑکی دکان میں دومسلح ملزم داخل ہوئے ،ملزمان نے دکان میں موجود کباڑی محمد افضل کواسلحے کے زور پر یرغمال بنالیا اورلوٹ مار شروع کردی ۔ملزمان کباڑ کی دکان میں موجود ٹیبل کی درازسے 60ہزارروپے چھین کر فرارہوگئے ،مسلح ملزمان فرار ہوتے ہوئے کباڑی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے کر گئے۔کباڑی محمد افضل کا کہنا ہے ملزمان نے اسے منع کیا کہ وہ پولیس کو نہ بلائے ورنہ اسے نقصان اٹھانا پڑے گا،کباڑی کا کہنا ہے کہ وہ سامنے آنے پردونوں ملزم کو پہچان سکتا ہے۔
تین روز قبل بھی سچل تھانے کے علاقے سنار کی دکان میں ڈکیتی کی واردات کے دوران مسلح ملزمان عملے اورگاہگوں کو یرغمال بناکر تین تولہ سونا،ڈیڑھ لاکھ روپے نقد، گاہگوں کے موبائل فونزاورنقدی چھین کر فرار ہو گئے تھے ۔گلشن معمار میں دس ے زائد مسلح ملزمان بھینسوں کے باڑے سے بارہ بچھڑے چھین کر فرار ہوگئے ۔گلشن معمار تھانے میں واصف مشتاق علی نے مقدمہ الزام نمبر 337/21مقدمہ درج کرایا ہے کہ 14مئی کی صبح سپر ہائی وے غنی آباد میں قائم میرے بھینسوں کے باڑے میں دس سے زائد مسلح ملزمان نے داخل ہوئے اور چوکیدار کو باندھ کر قربانی کے لئے تیار کیے جانے والے 12 بچھڑے ایک ٹرک میں ڈال کر فرار ہوگئے جس کی مالیت 24لاکھ روپے سے زائد تھی ۔ ایف آئی اے کے متن کے مطابق باڑے میں 35جانور تھے جس میں ملزمان خاص طور قربان کے لئے تیار کیے جانے والے بچھڑے لے کر فرار ہوئے تاہم پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کردی ۔
یہ چند وارداتیں ہیں جن سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شہر میں ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں اور ان وارداتوں کے نتیجے میں شہری اپنی جمع پونجی سے محروم ہو رہے ہیں۔ کچھ وارداتوں میں ملوث ملزمان کو سی سی ٹی وی فوٹیجز کی مدد سے گرفتار بھی کیا گیا ہے تاہم شہر کے ایسے علاقے جہاں کیمرے موجود نہیں ہیں، وہاں پولیس کو ملزمان کا سراغ لگانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی لیے کراچی میں سیف سٹی پراجیکٹ بہت ضروری ہے،سندھ حکومت کو چاہئے کہ سیف سٹی کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ ان واقعات کی روک تھام ہو سکے۔