محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
پاکستان نے اپنا تمام تر وزن اَمن، اِنٹرا افغان مذاکرات اور سیاسی سمجھوتہ کے حق میں ڈالا ہے۔ کیا ایسا ہو سکے گا کہ نہیں یہ وقت ہی بتائےگا۔ لیکن پاکستانی مؤقف کے پیچھے پارلیمنٹ کا وزن بھی ہونا چاہئے۔
ہمیں جلد اَز جلدپارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس کر کے اُبھرتی صورت حال کا دانش مندانہ تجزیہ کر کے اپنی پالیسی آپشن طے کرنی چاہئیں،قبائلی علاقے اب قبائلی ڈسٹرکٹ بن چکے ہیں وہاں اچھا برا سیاسی عمل بھی جاری ہے لیکن دہائیوں کی جنگ سے نالاں نئی نسل بھی سامنے آ چکی ہے، افغانستان میں امن تمام فریقین کی واحد ضرورت اور ترجیح ہونی چاہئے۔
اگر گورننس اور سیکورٹی کے حوالے سے خلاء ہوگا تو یہ سبھی کے لیے بھیانک ہوگا۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ افغانستان میں ریورس گیئر نہ لگے،بحیثیت پاکستانی ہماری سوچ اور اَپروچ یہ ہونی چاہئے کہ ہم افغانستان میں امن اور نمائندہ حکم رانی کے لیے کام کریں
ظفر اللہ خان
اس وقت جی سیون ممالک بشمول چین ، روس اور دیگر عالمی طاقتیں پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان بالکل اسی طرح ایک انتہائی اہم اور رضاکارانہ کردار ادا کرے گا جس طرح وہ افغان امن عمل اور اس سے پہلے بہت سے مواقع پر کرتا آیا ہے،نئے امریکی بجٹ میں پاکستان کی عسکری اور غیر عسکری امداد سے بھی امریکی افواج کے بعد کے افغانستان میں پاکستان کے کردار اور امریکا کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کا انداز ہوتا ہے۔
یہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مفادات اور باہمی تعاون کی تازہ مثال ہے۔ یہ مفادات براہ راست نہ صرف خطے کی علاقائی سیکیورٹی صورت حال بلکہ افغانستان کے امن اور سیاسی مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں، افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان کے اندر پیدا ہونے والے تنائو اور ایک غیر یقینی کی صورت حال ، بدامنی اور عدم استحکام یقینا ہمسایہ ممالک سمیت پورے خطے کے لیے پریشانی کا باعث ہے
پروفیسر طاہر نعیم ملک
دو دہائیوں پر محیط تباہ کاریوں، لاکھوں افغان اموات، خود اپنے ہزاروں نوجوان فوجیوں کی ہلاکتوں اور اربوں ڈالر لٹانے کے بعد امریکا نے افغانستان سے واپسی کا اٹل فیصلہ کرلیا۔
یہ واپسی پاکستان میں اور آس پاس کے دوسری ممالک میں کیا قیامت ڈھا سکتی ہے یہ سوچ کر ہی ہم آپ اگر خوفزدہ نہیں تو سب نروس ضرور ہیں،امریکا افغانستان کی مالی اور سیاسی مدد جاری رکھے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ افغانستان میں کسی بھی شکل اور صورت میں امریکا کی کسی نہ کسی حد موجودگی برقرار رہے گی۔
سیاسی اور مالی امداد بغیر کسی لین دین کے نہیں ہوتی۔ اس کے لیے زمین پر ایک نیٹ ورک چھوڑنا ہوگا،اس کے علاوہ امریکا کا پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ اور اس کے لیے جاری خفیہ بات چیت اور پھر قریبی سمندروں میں امریکی طاقت کی موجودگی ایک سطح پر امریکا کے مستقبل کے منصوبوں کے نشاندہی کرتے ہیں، افغانستان سے امریکی بوٹس تو کم یا ختم ہوجائیں گے لیکن سوٹس پہننے والے بڑھ جائیں گے
فیض رحمٰن
افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی شروع ہونے کو ہے اور گیارہ ستمبر تک انخلاء مکمل کر لینے منصوبے پر اٹل رہنے کے صدر جو بائیڈن کے اعلان کے بعد دنیا بھر میں قیاس آرائیاں جاری ہی خبر ہے کہ امریکا اس خطے میں اپنے مستقبل کے رول کے حوالے سے پڑوسی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ”ہم ہمسایہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر امریکا کو فوجی اڈے قائم کرنے یا فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
اگر انہو ں نے ایسا کرنے کی اجازت دی تو یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی اور رسوائی کا باعث بنے گی۔" امریکا کی افغانستان سے انخلاء کے منصوبے پر سیاسی بے چینی دنیا بھر میں دکھائی دے رہی ہے، افغانستان اور خطے میں آئندہ سیاسی صورت حال کیا ہو گی، امریکا کا مستقبل میں کیا کردار ہو گا، یہ جاننے کے لئے افغانستان سے امریکا کا انخلاء، امن یا خانہ جنگی کے موضوع پر ایک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا جس سےظفر اللہ خان (کنوینر،پارلیمنٹری ریسرچ گروپ) ،پروفیسر طاہرنعیم ملک (ماہرِ عالمی امور/نمل یونی ورسٹی، اسلام آباد) اور فیض رحمٰن (ماہر بین الاقوامی تعلقات/سابق سربراہ، اُردو سروس، وائس آف امریکا) نے اظہار خیال کیا ، فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔
ظفر اللہ خان
کنوینر، پارلیمنٹری ریسرچ گروپ
افغانستان میں چار دہائیوں کی جنگ کے بعد ایک بار پھر ایک نئی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے۔ امریکا کے انخلاء کے بعد افغانستان کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا؟ کیا تباہ حال ملک کو امن اور استحکام نصیب ہوگا؟ کیا 9/11 کے بعد بزورِ طاقت لائی گئی جمہوریت، پارلیمنٹ، آئین، ادارے، تھوڑے بہت حقوق اور مقامی سیکورٹی فورسز کچھ بند باندھ سکیں گے یا پھر ایک بار پھر کابل خانہ جنگی کا منظر پیش کرے گا؟
ہمارے لئے اہم ترین باتیں یہ ہیں کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے مستقبل کے کسی بھی ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے جس کے پاکستان کے لئے منفی اثرات ہوں۔ نیز یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ پاکستان نے اپنا تمام تر وزن اَمن، اِنٹرا افغان مذاکرات اور سیاسی سمجھوتہ کے حق میں ڈالا ہے۔ کیا ایسا ہو سکے گا کہ نہیں یہ وقت ہی بتائےگا۔ لیکن پاکستانی مؤقف کے پیچھے پارلیمنٹ کا وزن بھی ہونا چاہئے۔
ہمیں جلد اَز جلد ان کیمرہ اجلاس کر کے اُبھرتی صورت حال کا دانش مندانہ تجزیہ کر کے اپنی پالیسی آپشن طے کرنی چاہئیں۔ تا حال اس ضمن میں سُستی نظر آتی ہے۔ دُوسرا یہ کہ اگر خدانخواستہ افغانستان میں فریقین کے مابین کوئی قابل عمل سمجھوتہ شراکت اور شمولیت اقتدار کے حوالے سے نہیں ہوتا تو امکان رہے گا کہ افغان مہاجرین کی ایک نئی لہر آئے۔
ایسی صورت حال میں باوجود اس کے کہ ہم نے پاک۔ افغان بارڈر پر خاردار تاریں لگا دی ہیں۔ ہمارے لئے مشکلات بڑھیں گی۔ قبائلی علاقے اب قبائلی ڈسٹرکٹ بن چکے ہیں وہاں اچھا برا سیاسی عمل بھی جاری ہے لیکن دہائیوں کی جنگ سے نالاں نئی نسل بھی سامنے آ چکی ہے۔ ان میں سے اچھی خاصی تعداد پشتون تحفظ موومنٹ کو اپنا پلیٹ فارم سمجھتی ہے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ اُن کے اور حکومتی و ریاستی اداروں کے درمیان کوئی مکالمہ نہیں جو کہ اُبھرتی صورت حال کے لیے اچھا شگون نہیں۔
پاکستان نے گزشتہ دہائی میں ضربِ عضب اور آپریشن رَدّالفساد کی صورت میں اچھی خاصی کامیابیاں حاصل کیں لیکن حکام اور مقامی آبادی اکثر آمنے سامنے نظر آتی ہے۔ افغانستان اور ہمارے قبائلی اضلاع میں ابھی تک امن کی معیشت ابھی تک خواب ہے۔ نیز مبصرین افغان اور پاکستانی طالبان کو فکری اور عملی اعتبار سے باہم منسلک سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ المختصر پاکستان کے لئے متعدد چیلنجز ہوں گے جن کا ہمیں دانشمندی سے سامنا کرنا ہوگا۔
امریکی انخلاء لمحہ موجود تک امریکا کا یک طرفہ یا پھر زیادہ سے زیادہ افغان طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس میں افغانستان کا موجودہ سیاسی سیٹ اَپ غائب دکھائی دیتا ہے بلکہ طالبان کی پیش قدمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ کسی ایسے سمجھوتہ کی عدم موجودگی جس میں تمام فریقین شامل ہوں اور اسے بین الاقوامی ضمانتیں بھی میسر ہوں، کئی سوالات کھڑے کر رہا ہے کہ اب گریٹ گیم کے نئے راز کیا ہیں؟
ایسے میں افغانستان کے اپنے پڑوسی ملکوں کا کیا کردار ہوگا؟ اہم بات ہے۔ پاکستان تو اب عرصہ سے جیو اسٹریٹیجک کی بجائے جیو اکنامکس کی بات کر رہا ہے۔ تاہم یہ بات تمام فریقین کے لیے نہیں کہی جا سکتی۔ اُبھرتی ہوئی افغان صورت حال میں ایک بار پھر افغانستان کو بڑی طاقتوں کے ایڈونچرز کا قبرستان کہا جا رہا ہے لیکن اس سارے عمل میں افغانستان بھی افغانوں کے لیے کوئی گل و گلزار نہیں رہا۔ا س لئے افغانستان میں امن تمام فریقین کی واحد ضرورت اور ترجیح ہونی چاہئے۔ اگر گورننس اور سیکورٹی کے حوالے سے خلاء ہوگا تو یہ سبھی کے لیے بھیانک ہوگا۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ افغانستان میں ریورس گیئر نہ لگے۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ دوحہ مذاکرات میں یہ موضوعات بہت کم سامنے آئے۔
حالات و واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ افغان طالبان آگے بڑھ رہے ہیں۔ 9/11کے واقعات کے بعد ان کے اَذہان، تجزیہ اور رویئے میں انسانی حقوق، بالخصوص عورتوں کی تعلیم اور اقلیتوں کے تحفظ اور نمائندہ گورننس کے حوالے سے کوئی تبدیلی آئی ہے یا پھر وہی کچھ دُہرایا جائے گا جو ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ مجھے تو پھلتی پُھولتی افغانستان کرکٹ ٹیم کی بھی فکر ہے کیونکہ ماضی میں نیکر پہن کر فٹ بال کھیلنے والوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
اُمید ہے پورے لباس کے ساتھ کھیلا جانے والا یہ کھیل زندہ رہے گا۔بحیثیت پاکستانی ہماری سوچ اور اَپروچ یہ ہونی چاہئے کہ ہم افغانستان میں امن اور نمائندہ حکمرانی کے لیے کام کریں اور دُنیا کو بھی باخبر رکھیں کہ جنیوا آکارڈ کے بعد ان کے غائب ہو جانے کی قیمت بہت زیادہ تھی اور اب تو شاید بہت ساروں میں اتنی قیمت ادا کرنے کی سکت بھی نہ ہو۔
پروفیسر طاہر نعیم ملک
ماہرِ عالمی امور/نمل یونی ورسٹی، اسلام آباد
اکیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی رونما ہونے والاایک واقعہ ’’نائن الیون‘‘ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے نہ صرف اس صدی کا سیاسی دھارا بدل دیا بلکہ ایک نہ ختم ہونے والے چین ری ایکشن، ایک نئے ولڈ آرڈر ، نئی براہ راست اور بلواسطہ جنگوں کی ابتداء، نئے اتحادیوں اور نئے دشمنوں کی صف آرائیوں، نئے کانفلکٹ اور سیاسی چلینجز، نئے سیاسی اور جغرافیائی مقاصد اور ان کے حصول کا نقطہ آغاز بنا۔ اس نئی سیاسی اور عسکری زورآزمائی کا مرکز ایک بار پھر دہائیوں سے سے جنگ کا شکارخطہ افغانستان بنا اور یوں اس کابراہ راست اثر پاکستان پر پڑا ۔ اگر11ستمبر کو یہ ایک واقعہ رونما نہ ہوتا تو شایدآج کا پاکستان مختلف ہوتا۔
آج ٹھیک بیس برس بعدایک ایسا ہی دوسرا واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے اسی دوراہے پر کھڑا ہے جہاں وہ چند دہائیوں پہلے تھا ۔ بیس سال پہلے افغانستان میں امریکی افواج کا حملہ جس قدر اہمیت کا حامل تھا، آج دو دہائیوں بعد لق و دق میدانوں اور سنگلاخ پہاڑوں میں غیر ملکی افواج کے قبرستان سمجھے جانے والے ملک افغانستان سے امریکی افواج انخلا شاید اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا اورشاید اس سے بعد زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
جوںجوں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی ڈیڈلائن قریب آ رہی ہے نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کے سیاسی حلقوں میں ایک بے چینی اور غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ اس وقت جی سیون ممالک بشمول چین ، روس اور دیگر عالمی طاقتیں پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان بالکل اسی طرح ایک انتہائی اہم اور رضاکارانہ کردار ادا کرے گا جس طرح وہ افغان امن عمل اور اس سے پہلے بہت سے مواقع پر کرتا آیا ہے۔ خطے میں دیر پا امن اور استحکام کی یہی ایک مثبت امید ہے۔ لہٰذا اس وقت موجودہ صورت حال میں امریکی حکام کی پاکستان سے بہت سے توقعات وابستہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلی ایک دہائی میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری اور ابتری کی حیران کن بدلتی غیر مستقل صورت حال کے باوجود اب پاکستان امریکا کے قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کا اظہار نہ صرف پاکستان کے امریکی حکام سے اعلیٰ سطحی رابطوں بلکہ پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کا پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کے ہمراہ دورہ افغانستان اور سی آئی اے چیف کا ہنگامی دورہ پاکستان سے ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ نئے امریکی بجٹ میں پاکستان کی عسکری اور غیر عسکری امداد سے بھی امریکی افواج کے بعد کے افغانستان میں پاکستان کے کردار اور امریکا کی نظر میں پاکستان کی اہمیت کا انداز ہوتا ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی مفادات اور باہمی تعاون کی تازہ مثال ہے۔ یہ مفادات براہ راست نہ صرف خطے کی علاقائی سیکیورٹی صورت حال بلکہ افغانستان کے امن اور سیاسی مستقبل سے جڑے ہوئے ہیں۔
بادی النظر میں پاکستان اور امریکا کے مابین تعلقات کے حوالے سے ایک پالیسی شفٹ رونما ہوتا واضح ہو رہا ہے اور پاکستان اب افغانستان، بھارت ، کشمیر اور اپنے دیگر ڈومیسٹک مفادات کے تناظر میں امریکا سے قلیل المدتی تعلقات کے بجائے طویل المدتی تعلقات چاہتا ہے۔ اس میں معیشت ، دفاع اور سیکیوٹی صورت حال کے علاوہ ٹیکنالوجی سمیت کئی دیگر شعبے شامل ہیں۔ اس لحاظ سے افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا نہ صرف امریکا بلکہ پاکستان کے لیے بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ یہ اسی کی دہائی کی سرد جنگ کا زمانہ نہیں ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ رونما ہونے والی سیاسی اور عالمی تبدیلیوں، نئے زمینی حقائق اور نئی عالمی صف بندیوں کے بعد پاکستان اب مسئلہ افغانستان کو ایک نئے پہلو سے دیکھتا ہے۔ پاکستان نے بہر طور کئی دہائیوں تک افغانستان کے داخلی معاملات میں غیر معمولی دلچسپی ، سیاسی خدوخال پر اثر انداز ہونے کی کامیاب کوشش اور ’تزویراتی گہرائی‘ جیسی اپروچ کے ایک طویل تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے اور کئی اہم اسباق حاصل کیے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے افغانستان میں طالبان جیسے اسٹیک ہولڈرز سے غیر معمولی تعلقات اور اثررسوخ کے باوجود موجودہ صورت کا تناظر نوے کی دہائی سے مختلف ہے۔
دوسری طرف اس بدلتی ہوئی صورت حال میں امریکا کی سیاسی اور تزویراتی ترجیحات صرف امریکا تک محددود نہیں بلکہ چین اور امریکا کے درمیان تنائو اور مشرق وسطی میں ایران کی باعث امریکا مفادات کو درپیش چیلنج بھی اہم نوعیت کے معاملات ہیں جو خطے سے متعلق امریکی پالیسی کے بنیادی محرکات ہیں اور امریکی مفادات میں ایک اہم پہلو بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی کے حوالے سے ایک وسیع کینوس پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس میں پاکستان کے نئے سیاسی، معاشی، تزوراتی اور علاقائی نجی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جا نا چاہیے۔
افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء کے ساتھ ہی افغانستان کے اندر پیدا ہونے والے تنائو اور ایک غیر یقینی کی صورت حال ، بدامنی اور عدم استحکام یقینا ہمسایہ ممالک سمیت پورے خطے کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ خاص طور پر مسلح طالبان کاپوری طاقت کے ساتھ ایک بار افغانستان کے ایک بڑے حصے پر کنٹرول اور اس کے علاوہ خون ریز حملوں سمیت کچھ پرتشدد کارروائیوں سے امریکا کی مدد سے قائم کی گئی افغان حکومت اور افغان اسٹیبلشمنٹ /ایڈمنسٹریشن کی کمزور ہوتی ہوئی رٹ خطرے کی گھنٹی ہے۔
افغانستان کے لسانی، نسلی ، قبائلی تفرقات کے علاوہ سیاسی گرہوں کے درمیان چپقلش اور مسلح جنگجوہوں کی حکومت مخالف کارروائیاں جیسے مسائل افغانستان کے اندر صورت حال کو مزید پیچدہ بناتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان مسلح ہونے کے باوجود افغانستان کے اندر ایک مضبوط اور لیجٹمیٹ سیاسی اسٹیک ہولڈر تو ہیں مگرایک جامع پولیٹیکل سٹیلیمنٹ کے بغیر افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاء افغانستان میں جمہوریت کے مستقبل کے لیے ایک ایسا خطرہ ہے جو اب افق پر پہلے سے زیادہ شدت سے منڈلا رہا ہے۔
اس لیے اب دنیا بھر کو اس بات کا ایک بار پھر احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں ایک دیرپا امن قائم کرنا ممکن نہیں۔دوسری طرف اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان میں کسی بھی قسم کے عدم استحکام کی صورت میں اسی کی دہائی اور پھر نائن الیون کے واقعات کے بعد رونما ہونے والی صورت حال کی طرح ایک بار پھر پاکستان اس کے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہو سکتا ہے۔جب کہ یہ عدم استحکام کئی حوالوں سے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے لیے بھی پریشان کن ہو سکتا ہے۔ لہٰذا دونوں ملکوں کو اس حوالے سے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ اس وقت افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت نئے امریکی صدر کے حالیہ اعلانات کے بعد سے تذبذب کا شکار ہے جس کا اظہار افغان صدر کے حال میں ایک جرمن جریدے کو دیے گئے انٹروویو میں بھی ہوتا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے اپنے حالیہ امریکی دورے کے دوران ایک بار پھر امریکی صدر کو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کو ملتوی کرنے پر قائل کرنے کی آخری ناکام کوشش کی ہے مگر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس میں کسی بھی قسم کی لچک دکھانے سے انکار کر دیا ہے۔
موجودہ صورت حال میں ایک بات واضح ہے جسے تسلیم کرنا چاہیے کہ امریکا کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد بھی افغانستان کے لیے امریکا کاسیاسی اور معاشی تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا اور اس’ ٹرانزیشنل فیز‘ میں افغانستان کو مختلف پہلوں سے کثیر امریکی امداد اور مضبوط امریکی تعاون درکار ہو گا۔ دوسری طرف پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان ایک بہتر خارجہ پالیسی اور کامیاب ڈپلومیسی کے ذریعے افغانستان کی موجودہ صورت حال کو بروئے کار لاتے ہوئے افغانستان کے ذریعے اپنے بہت سے جغرافیائی اور معاشی مسائل حل کر سکتا ہے۔پاکستان ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر افغانستان کے موقع کو بروقت استعمال کر کے نہ صرف اپنے مفادات کی تکمیل کر سکتا ہے بلکہ اسے بہت وسعت اور پھیلائو بھی دے سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب میں پاکستان کے منفی تاثر کو زائل کر کے مغربی طاقتوں سے اپنے تعلقات میں بہتری بھی لا سکتا ہے۔ اس حوالے سے یہ پاکستان کے لیے ایک نادر موقع ہے۔
فیض رحمٰن
ماہر بین الاقوامی تعلقات/سابق سربراہ، اُردو سروس، وائس آف امریکا
امریکی محکمہ دفاع نے ایک بار پھر یقین دہانی کرائی ہے کہافغانستان سے امریکا کے مکمل انخلا کا فیصلہ اٹل ہے اور کروڑوں ڈالر سے تعمیر کیا گیا بگرام کا فوجی اڈہ بھی بھی مکمل طور پر خالی کردیا جائے گا اور اس سلسلے میں تمام قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ پینٹا گون کے ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں تسلیم کیا کہ افغانستان میں طالبان کی مستقل پیش قدمی کے باعث صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے لیکن صدر بائڈن کے دو فیصلے اٹل ہیں : نمبر ایک، تمام امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی، سوائے چند کے جو کہ سفارتی عملے کی حفاظت پر مامور ہوں گیں۔
نمبر دو، یہ مکمل انخلا اس سال گیارہ ستمبر تک مکمل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ وائٹ ہا وٗس کی ترجمان نے طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے ہمارے ساتھ معاہدے کے مطابق ابھی تک امریکی اہداف پر حملہ نہیں کیا انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم وہاں رکے رہے تو امریکی افواج بھی طالبان کے حملوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ایک غیر معمولی صورت حال کے بارے میں یہ غیر معمولی بیانات ہیں ۔ اور اس سے افغان حکومت اور خطے کے دیگر ممالک میں بے چینی بڑھ جانا ایک منطقی نتیجہ ہے۔
پاکستان میں بے چینی اور شیخ رشید کا طالبان کے لیے بیان پاکستان میں اس بے چینی اور غیر یقینی صورت حال کا مظاہرہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے دو ٹوک الفاظ میں کیا جب انہوں نے افغان طالبان سے اپیل کی کہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کو افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے کر ایک بڑا فیصلہ کیا ہے اور اس کے جواب میں انہیں امید ہے کہ طالبان تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں حملے کرنے سے روکیں گے اور پاکستان کے عوام کی جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ تو گویا ہماری جان و مال کی حفاظت کا بوجھ بھی طالبان کے کندھوں پر آپڑا ہے۔ یہ بات بھی قرین قیاس لگتی ہے کہ وزیر اعظم کے امریکی ٹی وی انٹرویو میں امریکا کو فوجی اڈے دینے کی واضح اور قطعی تردید کے اصل مخاطب امریکی نہیں بلکہ طالبان تھے کیوں کہ شیخ رشید نے وزیر اعظم کے اسی بیان کو دلیل بناکر طالبان کے آگے ہاتھ جوڑے ہیں۔
شنید یہ ہے کہ اہم معاملات سیاسی قیادت کو الگ تھلگ رکھ کر براہ راست پینٹا گون سے تقریبا طے پاچکے ہیں۔شیخ رشید کا یہ بیان اس سال مئی میں طالبان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک دھمکی آمیز بیان کا جواب تھا ۔ اس بیان میں طالبان نے پاکستان کا نام لیے بغیر خبردار کیا تھا کہ خطے میں کوئی بھی ملک اگر امریکا کو فوجی اڈے دے گا یا فضائی حقوق استعمال کرنے کی اجازت دے گا تو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ پاکستان انتہائی اعلی سطح پر امریکا کو اڈے دینے کی بار ہا پرزور تردید کرچکا ہے۔ اس بار بار کی تردید کے بعد بھی کیا افغان طالبان سے اس دست بستہ درخواست کی گنجائش تھی ، یہ ارباب اختیار ببہتر جانتے ہیں کہ ہمارا داخلی اور خارجی دفاع کس حد تک طالبان کی خوشنودی یا ناراضگی پر محمول ہے؟
اس بات کا جواب دینا بھی بنتا ہے کہ کیا افغان طالبان کو ابھی بھی یقین ہے کہ پاکستان ان کے ساتھ بھی ڈبل گیم کررہا ہے؟ ایک ایٹمی طاقت کا ایک بڑی حد تک ایک بے قاعدہ فوج جس کے پاس کوئی فضائی طاقت بھی نہیں کے لیے اس پبلک پیغام کا کیا جواز ہے ؟ بہرحال عوام کے لیے یہ ایک انتہائی حوصلہ شکن اور خوفناک امر ہے ۔شیخ رشید کے اس بیان کی روشنی میں اگر وزیر اعظم کے حالیہ بیانات دیکھے جائیں جو انہوں نے مختلف معاشرتی مسائل کے بارے میں دیے ہیں جن میں زنا بالجبر کے بار ے میں ان کا عالمی شہرت یافتہ موقف اور مغربی لباس پر ان کا اظہار خیال بھی شامل ہیں تو پاکستان کے عوام کی تشویش قابل فہم ہے ۔
اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک افغان ٹی وی انٹرویو میں اسامہ بن لادن کے بارے میں ایک سوال کہ آیا وہ اسامہ کو شہید سمجھتے ہیں یا نہیں ایک طویل خاموشی اختیار کرنا اور پھر یہ جواب کہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ابھرنے والی صورت حال کے بارے میں پاکستان کا تذبذب اور بے چینی ظاہر کرتا ہے ۔ وزیر خارجہ ایک ورلڈ کلاس مدبر نا صحیح بہرحال ایک پڑھے لکھے تجربہ کار سفارت کار ہیں ۔ ان کا بظاہر ایک آسان سوال پر ایک طویل مراقبے میں چلا جانا بڑا معنی خیز ہے اور معاملات کو سمجھنے میں مددگار ہے۔
امریکی فیصلے کی وجوہات اور خطے میں بے چینی کے اسباب اس بے چینی اور پریشانی کا پس منظر کئی دہائیوں پہلے سویت یونین کا افغانستان سے شرمناک انخلا اور اس کے بعد پاکستان اور پورے خطے میں آنے والی اہم اور خوفناک تبدیلیاں ہیں ۔ بے شک پاکستان پر اس انخلا کا سب سے زیادہ منفی اثر پڑا ۔ ہمارا معاشرہ یکسر اور مسقل طور پر تبدیل ہوگیا ۔ معاشرت ، مذہب اور معیشت پر اس تبدیلی کے بے انتہا گہرے اثرات پڑے ۔
ایک گرتی ہوئی سپر پاور خطے سے اپنی تمام تر خرابیاں چھوڑ کر روانہ ہوئی، ٹوٹ پھوٹ گئی، برباد ہوگئی۔ ابھی کروڑوں لوگ اس ناقابل یقین واقعہ سے سنبھل بھی نا پائے تھے کہ دنیا کی اب واحد سپر پاور بن جانے والے ملک نے ستمبر گیارہ کے حملوں کے ملزمان خصوصا اسامہ بن لادن کے پناہ دینے کے الزام میں ایک انتہائی غریب اور کمزور ملک پر دھاوا بول دیا۔ خطہ ایک بار پھر لرز گیا ۔
پاکستان کے ناعاقبت اندیش حکم رانوں نے ایک بار پھر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو پرائی جنگ میں جھونک دیا۔ لاکھوں بے گھر ہوئے، ہزاروں مارے گئے۔ دو دہائیوں پر محیط تباہ کاریوں، لاکھوں افغان اموات، خود اپنے ہزاروں نوجوان فوجیوں کی ہلاکتوں اور اربوں ڈالر لٹانے کے بعد امریکا نے افغانستان سے واپسی کا اٹل فیصلہ کرلیا۔ یہ واپسی پاکستان میں اور آس پاس کے دوسری ممالک میں کیا قیامت ڈھا سکتی ہے یہ سوچ کر ہی ہم آپ اگر خوفزدہ نہیں تو سب نروس ضرور ہیں۔یہ فیصلہ کیوں کیا گیا اور اس کی واپسی کا کوئی امکان کیوں نہیں؟
اس جواب کی کئی جہتیں ہیں۔ لیکن اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ امریکی عوام اور میڈیا کی افغانستان میں تقریبا نہ ہونے کے برابر دلچسپی ہے۔ بلکہ ایک غصے کی سی کیفیت ہے کہ اتنی زبردست قیمت چکانے کے بعد بھی افغان معاملات بد سے بد تر ہوئے ہیں ۔ امریکی عوام کی رائے کو اس نہج تک پہچانے میں افغانستان سے آ نے والی کرپشن کی ہوشربا داستانیں بھی ہیں۔ آج جو افغان امریکا کے اس فیصلے پر نکتہ چیں ہیں وہ خود بھی اس کے پوری طرح سے ذمہ دار ہیں۔ دولت کی ہوس، جھوٹ، فریب اور مسلسل خانہ جنگی کی کیفیت نے صدر بائڈن کو اب نہیں تو پھر کب کہنے پر مجبور کردیا۔
یہ واپسی ہے علیحدگی نہیں لیکن صدر بائڈن نے افغان صدر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سے وائٹ ھاوٗس میں ملاقات کرتے ہوئے ا وعدہ کیا کہ امریکا کی یہ واپسی مطلق نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان کی مالی اور سیاسی مدد جاری رکھے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ افغانستان میں کسی بھی شکل اور صورت میں امریکا کی کسی نہ کسی حد موجودگی برقرار رہے گی۔ سیاسی اور مالی امداد بغیر کسی لین دین کے نہیں ہوتی۔ اس کے لیے زمین پر ایک نیٹ ورک چھوڑنا ہوگا۔
اس کے علاوہ امریکا کا پاکستان سے فوجی اڈوں کا مطالبہ اور اس کے لیے جاری خفیہ بات چیت اور پھر قریبی سمندروں میں امریکی طاقت کی موجودگی ایک سطح پر امریکا کے مستقبل کے منصوبوں کے نشاندہی کرتے ہیں۔ اس پوری بڑی تصویر میں چین کا بڑھتا ہوا عالمی اثر و نفوز اور بھارت کی بے چینی بھی شامل ہے۔ بائڈن انتظامیہ میں بھارتی نژاد امریکیوں کی ایک بڑی تعداد اہم عہدوں پر فائز ہے جن میں نائب صدر کملا ہارث بھی شامل ہیں۔
پالیسی سازی میں اس لابی کے شامل ہونے سے چین کے خلاف بھارت کے مفادات کے تحفظ میں امریکا پیچھے نہیں ہٹے گا۔ لہذا یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ افغانستان سے امریکی بوٹس تو کم یا ختم ہوجائیں گے لیکن سوٹس پہننے والے بڑھ جائیں گے۔ کیونکہ امریکا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ افغانستان آئندہ کبھی بھی اس کے اور اس کے اتحادیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔ اور اس سلسلے میں امریکا کی دفاعی انڈسٹری بھی اہم کردار ادا کرتی رہے گی۔
افغانستان کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے امریکا کو اب زمینی طاقت کی ضرورت نہیں، اسکا انحصار اب فضائی طاقت پر ہوگا اور نت نئے ڈرونز ایک اہم کردار ادا کریں گے۔ یاد رہے کہ امریکا کی روانگی ہر گز اچانک نہیں، اوبامہ دور سے اسکا چرچا چل رہا ہے اور امریکا اس کی تیاری بھی عرصے سے کررہا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکا نے اپنی واپسی کے لیے طالبان سے مزاکرات اور معاہدے کیے۔ ان معاہدوں میں تمام نقائص کے باوجود طالبان کو صحیح ٹریک پر رکھنے کی طاقت موجود ہے۔
افغانستان سےسویت یونین اور امریکی انخلا کا غلط موازنہ۔اس انخلا سے خطے کے ممالک جن میں چین، بھارت اور وسطی ایشیا کے ممالک شامل ہیں، اور پاکستان کا تو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں، میں قابل فہم سراسیمگی پھیلنے کی بنیادی وجہ اس انخلا سے پیدا ہونے والی غیر یقینی اور ناقابل تصور صورت حال ہے جسکا موازنہ اکژ مبصرین سویت یونین کی واپسی سے کرتے ہیں ۔ لیکن ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان دو انخلاوٗں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یو ایس ایس آر ایک شکست خوردہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تیزی سے تنزلی کا شکار ریاست تھی ۔
اس کی واپسی اور خود بکھر جانے سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا تھا ۔ امریکی افواج کا انخلا ایک یکسر مختلف صورت حال ہے۔ امریکا افغانستان سے اپنے فوجی تو بلا رہا ہے لیکن خطے سے نہیں جارہا۔ پاکستان سے کسی نہ کسی سطح پر اڈوں کی بات طے پا جائیگی یا طے پا چکی ہے۔ اس ضمن میں صدر بائڈن کا وزیر اعظم عمران خان سے ابتک کوئی براہ راست رابطہ نہیں کرنا ایک بلکل کھلا اور واضح دباوٗ ہے ۔
فتف ایک اور لٹکتی تلوار ہے۔ اگر صدر بائڈن براہ راست عمران خان سے اڈوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو کیا وزیر اعظم اس دباوٗ کو سہہ پائیں گے اور انکے نا کرنے کے پاکستان کی معیشت اور دفاع کے لیے کیا مضمرات ہونگے۔ اس کے علاوہ امریکا کے پاس یقینا دوسرے آپشنز بھی ہیں جن میں اپنے بحری بیڑوں کا استعمال اور پاکستان کی فضائی حدود کی پامالی جیسا کہ صدر کلنٹن کے دور میں کیا جاچکا ہے۔
پاکستان کی تیاری:لیکن باوجود کمزور معیشت کے امریکی انخلا کے لیے پاکستان کی تیاری بہتر نظر آتی ہے۔ ایک تو بڑا تلخ سبق جو افغان اور طالبان قیادت نے ہمیں پچھلے کئی برسوں میں سکھایا ہے اس نے پوری قوم کو کم از کم اس بات پر تیار کرلیا ہے کہ اب کی بار بارڈرز نہیں کھولے جائینگے۔ ایران اور افغانستان کے بارڈر پر تیزی سے باڑھ لگانا، امریکا اور افغانستان کے موضوع پر سول اور ملٹری قیادت کی یکسوئی، دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ، اور طالبان اور امریکا کے درمیان معاہدہ اور اس کی پاسداری کے لیے امریکا کی پیش بندیاں ایسے نکات ہیں جس سے پاکستان پر ممکنہ منفی اثرات نپٹا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی عوام کے لیے حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان نے پچھلے کئی برسوں میں دہشت گردی پر بڑی حد تک قابو پایا ہے اور اس مشن کا انفرا اسٹرکچر موجود اور متحرک ہے۔
کیا طالبان سے بہتر گورننس کی امید کی جاسکتی ہے؟
لگتا ہے کہ طالبان نے امریکیوں سے جو معاہدہ کیا ہے اور اتنے برسوں میں جو سبق سیکھا ہے وہ دوبارہ اقتدار کو اس طرح ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ اس وقت امریکی تحقیق کے مطابق طالبان پہلے ہی سے اکیاسی فی صد افغان علاقوں پر قبضہ کر چکے ہیں۔ امریکا کی روانگی کے بعد انکی فتوحات جو کہ امریکی فضائی طاقت کے باعث سست ہے تیز ہو جائیگیں اور جلد ہی جیسا کہ کہا جارہا ہے وہ کابل پر قابض ہوجائینگے۔ اگر طالبان اقتدار میں آنے کے بعد اس بار بھی بڑے پیمانے پر قتل و غارتگری جاری رکھیں گے، انسانی حقوق کا پامال کریں گے، اور عورتوں پر بے جا پابندیاں لگائیں گے تو خود انکے لیے نتائج تباہ کن ہونگے۔
اگر انہوں نے پاکستان سمیت دوسرے ممالک میں شورش بپا کرنے کی کوشش کی تو دنیا اس بار بھی خاموش نہیں رہے گی ۔ عالمی اور علاقائی قوتوں کی جاری معاشی مسابقت کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان خطے کے لیے خطرہ نا بنے۔اگر طالبان اپنی کامیابی کے بعد عالمی رائے عامہ کا خیال کرتے ہوئے حکومت کریں اور بین الاقوامی سیاسی اور سفارتی اصولوں کی پابندی کریں تو امریکا اور دیگر طاقتیں افغانستان میں استحکام لانے کی خاطر ان سے تعاون پر مجبور ہونگی۔ اس منظر نامے میں پاکستان کا کردار اہم ہوگا۔ وزیر اعظم ، وزیر خارجہ، اور وزیر داخلہ کے حالیہ بیانات خالی از علت نہیں۔