عکّاسی: ذوالفقار علی خان، سیّد ارشد
پاکستان کا شمار دنیا کےاُن ممالک میں ہوتا ہے، جہاں چائے زیادہ اور انتہائی شوق سے پی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان سالانہ تقریباً10 ملین ڈالر کی چائے درآمد کرتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستانی کھانے پینے کے بے حددل دادہ ہیں اور پراٹھے تو ہمارے روایتی کھانوں کا حصّہ ہیں، آلو ،مولی ،پالک وغیرہ کے پراٹھے زمانۂ قدیم سے بنائے اور کھائے جارہے ہیں۔ ناشتے کی بات کی جائے تو چائے پراٹھا ہر طبقے کا مَن پسند کھاجا تصوّر کیاجاتا ہے۔
چاہے گرمی ہو یا سردی چائے کے بغیر دن شروع ہوتا ہے، نہ شام کا اختتام۔کچھ لوگ گھر کی بنی چائے پسند کرتے ہیں ، تو کچھ ہوٹل کی ۔ہوٹل کی چائے میں دودھ، پتّی ، چینی کے علاوہ اور کیا ڈالا جاتا ہے، اس کا تو ہمیں علم نہیں اور نہ ہی کوئی ہوٹلز کی صفائی ستھرائی کی ضمانت دے سکتا ہے، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ بعض کھانے پینے کی اشیاء عوام میں اس قدر مقبول ہوتی ہیں کہ انہیں خریدنے سے قبل لوگ ان کی قیمت دیکھتے ہیں، نہ حفظانِ صحت کے اصول۔
آج کل دیگرشہروں کی طرح راول پنڈی، اسلام آباد میں بھی سیکڑوں کے حساب سے’’کوئٹہ چائے ہوٹل‘‘ کُھل گئے ہیں۔ اس طرح کے ٹی اسٹالز اسلام آباد کے قریباً ہر سیکٹر کے مرکز میں نظر آتے ہیں ،جہاں چائے پینے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ان چائے خانوں میں عصر کے بعد سے صبحِ صادق تک مزدور طبقہ، ملازمت پیشہ افراد اوربے فکر نوجوان ،جو زیادہ تر ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں ،چائے کے کپ اٹھائے دوستوں کے ساتھ خوش گپّیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جابجا کوئٹہ ہوٹل کُھلنے سے پرانے چائے اور قہوہ خانے بھی کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں۔
اس حوالے سےراول پنڈی میں گزشتہ 30برس سے چائے کا ہوٹل چلانے والے چچا خالد کا کہنا ہے کہ ’’پہلے میرے ہوٹل پر ہر عُمر کے افراد کا رش رہتا تھا، بعض اوقات تو رش اتنا بڑھ جاتا کہ جگہ کم پڑ جاتی تھی، لیکن جب سے ’’کوئٹہ ہوٹل‘‘ کُھلنے شروع ہوئے ہیں، میرا کام بہت متاثر ہوا ہے۔ اللہ جانے ان ہوٹلوں کی چائے میں ایسا کیا مزہ ہوتا ہے، جو لوگ کِھنچے چلے جاتے ہیں۔‘‘ کوئٹہ ہوٹلوں میں ایک پراٹھے کی قیمت 30روپے سے لے کر 300روپے تک ہوتی ہے۔ اسی طرح چائے کی ایک پیالی بھی 30 روپے سے 100روپے تک ملتی ہے۔
یہاں بننے والی چائے میں دودھ پتّی،گولڈن ملائی چائے، دودھ پتّی گُڑ، دودھ قہوہ، دودھ بادامی چائے، دودھ ہنی چائے،گرین ٹی،گرین گُڑ چائے،برازیلین گرین ٹی، لیمن گراس، بلیک قہوہ، کشمیری چائے، کشمیری اناری چائے وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح پراٹھوں میں سادہ پراٹھا،آلو والا پراٹھا، پیزا پراٹھا، چکن پراٹھا، کباب پراٹھا، آملیٹ پراٹھا، چیز پراٹھا، لچّھا پراٹھا، ملائی پراٹھا، ہنی ملائی پراٹھا، چینی پراٹھا، کشمش پراٹھا، بادامی پراٹھا اور تل پراٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
بعض ہوٹلوں میں چائے کے ساتھ سالن بھی بنائے جاتے ہیں،جن میں دالیں، سبزیاں، گوشت،چکن اور دوسری ڈِشز شامل ہیں۔ چائے کے علاوہ ان ہوٹلوں کی خاص بات ان کے نام ہیں، جیسے’’کوئٹہ سدا بہار ، بلوچستان سدابہار ، اپنا کراچی ، کراچی ہوٹل ، اچک زئی ہوٹل ، پشین ، کاکڑ ہوٹل، چمن ہوٹل، بسم اللہ،کوئٹہ پاکستان،کوئٹہ کراچی ہوٹل وغیرہ۔‘‘ شہرِاقتدار میں یہ ہوٹل بلوچستان کے پشتونوں نے آباد کیے ہیں ۔
مقامی طور پر پشتون کہلانے والے ان افراد کا تعلق پشین ، کوئٹہ ، چمن ، قلعہ عبداللہ ، لورا لائی اور بلوچستان کے مختلف اضلاع سےہے۔ ان ہوٹلوں پر کام کرنے والے زیادہ تر ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپس میں رشتے دار بھی ہوتے ہیں۔ زیادہ تر افراد کا تعلق اچک زَئی، کاکڑ ، ترین قبائل سے ہوتا ہے ۔یہاں چائے بنانے والوں کی تن خواہ 17سے 20ہزار روپے ، پراٹھے بنانے والوں کی تن خواہ 16 سے 18 ہزار روپے اور ویٹر یا بیرے کی تن خواہ 12 سے 14 ہزار روپے ماہانہ طے ہے۔
یہ کوئٹہ چائے ہوٹل ایک طرح سے پکنک پوائنٹس بھی بن گئےہیں کہ موسمِ سرما میں دن ہو یا رات یہاں رش لگا رہتا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کی چائے پی کر جو راحت ملتی ہے، وہ فائیو اسٹار ہوٹل کی چائے میں بھی نہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ان ہوٹلوں کی چائے میں کوئی ایسی چیز ڈالی جاتی ہے، جس سے چائے وقتی طور پر تو اچھی بنتی ہے اور بہت مزہ بھی آتا ہے، لیکن بعد ازاں یہ صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔‘‘
اس کے جواب میں کوئٹہ ہوٹل کے مالکان کا کہنا ہے کہ ’’یہ صرف چند متعصّب لوگوں کی رائے ہے، ورنہ ہم نیک نیّتی سے اپنا کام کرتے ہیں اور چائےمیں کوئی مضرِ صحت شئے بالکل استعمال نہیں کرتے۔ اگر ہم ایسا کچھ کرتے تو بیمار ہونے کے سبب لوگ ایک بار کے بعد دوبارہ یہاں کا رُخ نہیں کرتے۔ ہم تو چائے کی پتّی سے لے کر پراٹھوں میں استعمال ہونے والے گھی ،تیل تک ہر چیز معیاری استعمال کرتے ہیں۔ اب اگر اللہ نے ہماری چائے، ہمارے ہاتھ میں ذائقہ رکھا ہے، تویہ اُس مالک کا احسان ہے،ہماری محنت و مقبولیت کو تعصّب کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔‘‘
پورے پاکستان میں بہت سےہوٹل ہیں ،جہاں صرف چائے ،پراٹھا نہیں، ہرطرح کی ڈشز ملتی ہیں، ایسے بہت سےہوٹلوں کی اتنی کمائی ہوتی ہے اور نہ ہی وہ اتنا زیادہ کرایہ دیتے ہیں ،جتنا کوئٹہ ہوٹل والے دیتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ عام ہوٹلوں کا سارا انتظام و انصرام ہوٹل کے اندر ہی ہوتا ہے، جب کہ اکثر کوئٹہ ہوٹل والوں نے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر قبضہ کیا ہواہے، خصوصاً رات کے وقت باہر کرسیاں لگا کر گاہکوں کو بٹھایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے اور گاڑیوں کے لیے وہاں سے گزرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کوئٹہ چائے خانوں سے متعلق کچھ افراد تشویش کا اظہار بھی کر تے ہیں کہ ’’ اچانک ہی اتنی بڑی تعداد میں یہ ہوٹل کیوں کُھل رہے ہیں، یہ کسی منصوبہ بندی کے تحت تو نہیں ہو رہا؟‘‘
بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ جن مقامات پر یہ ہوٹل قائم ہیں، ان کا کرایہ لاکھوں میں ہے، تو کیا صرف چائے ،پراٹھے سے اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ جس سے کرائے کی رقم ، ملازمین کی تن خواہیں ادا کی جا سکیں اور بچت بھی ممکن ہو…؟؟‘‘ اس ضمن میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے محمّد صدیق کا کہنا ہے کہ ’’مَیں نے پہلے’’کوئٹہ چائے‘‘ کے نام سے کراچی میں ہوٹل کھولا ، بعد ازاں 2018ء میں راول پنڈی آگیا اور اب یہاں یہ ہوٹل چلا رہا ہوں۔ کراچی کی نسبت یہاں کام زیادہ اچھا چل رہا ہے۔ یہاں مَیں ایک دن میں تقریباً 7مَن دودھ کی چائے فروخت کرتا ہوں اور لگ بھگ دو ہزار گاہک آجاتے ہیں، جن میں زیادہ تر سرکاری ملازمین اور طلبہ شامل ہیں۔‘‘
’’چائے میں دودھ، پتّی کے علاوہ کیا شامل کرتے ہیں؟‘‘ہم نے پوچھا تو محمّد صدّیق کچھ یوں گویا ہوئے کہ ’’مَیں یہ بات حلفاً کہتا ہوں کہ ہم میں سے کوئی بھی چائے میں دودھ ، پتّی اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں ڈالتا، مَیں چیلنج کرتا ہوں کہ کسی بھی لیبارٹری سے میری چائے ٹیسٹ کروالیں، اگر اس میں کوئی مضرِ صحت چیز نکل آئے، تو مَیں ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہوں۔ بات دَر حقیقت یہ ہے کہ اچھی چائے بنانا بھی ایک فن ہے۔ جس میں پتّی کا تناسب، چائے اُبالنے کا دورانیہ وغیرہ بہت معنی رکھتا ہے۔ علا وہ ازیں، ہم لوگ اسپیشل پتّی استعمال کرتے ہیں، جو خاص طور پرکراچی سے منگواتے ہیں۔
ویسے تو ہمارا کام چوبیس گھنٹے جاری رہتا ہے، لیکن علی الصباح اور رات گئے زیادہ رش ہوتا ہے۔ کوئٹہ چائے کے ہوٹل زیادہ تر کراچی میں ہیں۔ راول پنڈی، اسلام آباد میں تقریباً 600 ہوٹل ہی ہوں گے۔ ہمارے ہوٹل پرا سپیشل چائے کا کپ40 روپے کا اور سادہ چائے کی قیمت 30 روپے ہے، جہاں تک پراٹھوں کی بات ہے تو سادہ پراٹھا 30 روپے کا، آلو کا پراٹھا80 روپے اور پیزا پراٹھا 130 روپے کا ہے۔ لوگ زیادہ تر سادہ پراٹھے کھانا پسند کرتے ہیں اورہم لگ بھگ 60ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک یومیہ کمالیتے ہیں۔ البتہ، لاک ڈائون میں ہمارا بہت نقصان ہوا کہ فروخت نہ ہونے کے باوجود بھی کرایہ تو ادا کرنا ہی تھا۔‘‘
اسی حوالے سےپشین سے تعلق رکھنے والے گلاب شیر کا کہناہے کہ ’’پہلے میرا پشین میں ہوٹل تھا ،لیکن وہاں اتنا منافع نہیں ہوتا تھا، جتنا اسلام آباد میں ہوتا ہے۔ اب مستقل طور پر یہیں منتقل ہوگیا ہوں اور یہیں کام کر رہا ہوں اور اللہ کا شُکر ہے کہ کام بہت اچھا چل رہاہے۔‘‘’’کمائی سے مطمئن ہیں؟‘‘
ہمارے سوال کے جواب میں گلاب شیر نے کہا ’’الحمدُ للہ! بالکل مطمئن ہوں۔ بآسانی اتنی کمائی ہوجاتی ہے،جس سے ہم نہ صرف ہر ماہ کرایہ دے دیتے ہیں، بلکہ باقی اخراجات، جیسے گیس، بجلی کے بِلز، ملازمین کی تن خواہیں وغیرہ بھی پورے ہو جاتے ہیں۔
یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم کاروبارکر رہے ہیں،جو کبھی بہت اچھا چلتاہے اور کبھی مندا بھی،تو ایسےحالات میں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ لاک ڈائون میں ہمارا کام بہت متاثر ہوا ، کرایہ دینا اور دیگر اخراجات پورے کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا ،لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب کام پھر سے اچھا چل پڑاہے۔ یوں بھی یہ بابوؤں کا شہر ہے ، یہاں لوگوں کے پاس بہت پیسا ہے، تو ہمارا یہ چائے ،پراٹھا انہیں بہت سستا ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والی ایک باہمّت خاتون، صبیحہ بی بی نے بھی اسلام آباد میں ’’کوئٹہ‘‘ کے نام پر چائے کا ڈھابا شروع کیا ہے۔ صبیحہ کہتی ہے کہ’’ جب مَیں کوئٹہ سے اسلام آباد منتقل ہوئی ،تو سوچا کہ بچّوں کا پیٹ پالنے کے لیے کیا کروں گی، پھر بہت کم پیسوں سے ’’کوئٹہ چائے‘‘ کے نام سے ایک چھوٹا سا ڈھابا کھول لیا اور اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ اب کام بہت اچھا چل رہا ہے۔ یہاں بہت لوگ آتے ہیں، جو میرے ہاتھ کی بنی چائے اور پراٹھے شوق سے کھاتے ہیں۔‘‘صبیحہ کے ڈھابے پر بیٹھے ایک سرکاری ملازم، جوّاد علی نے بتایا کہ ’’ مَیں کھانا روزانہ گھر سے لاتا ہوں، لیکن چائے پینے یہیں آتا ہوں کہ یہاں کی چائے کا الگ ہی مزہ ہے۔‘‘
جب کہ ایک اور سرکاری ملازم ،تیمور خان کا کہنا ہے کہ ’’مَیں نے تو جب سے کوئٹہ ہوٹلز کی چائے پینا شروع کی ہے، اب اور کسی چائے کا لُطف ہی نہیں آتا۔ حتیٰ کہ گھر کی چائے بھی بد مزہ معلوم ہوتی ہے۔ سو، مَیں تو ہر روز ہی دوبار یہاں چائے پینے ضرور آتا ہوں کہ یہاں کی چائے بہت منفرد ہے۔‘‘ہوٹل پہ آئے چند نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ’’دوستوں کے ساتھ گرما گرم چائے پیتے ہوئے گپ شپ کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ ’’کوئٹہ ہوٹلوں کی چائے میں کوئی مضرِصحت چیز استعمال ہوتی ہے؟‘‘
تو انہوں نے کہا کہ ’’ہم تو سالوں سے یہاں آرہے ہیں،چائے پیتے ہیں اور پراٹھے بھی کھاتے ہیں، ہمیں تو آج تک کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا، یہ سب افواہیں ہیں، جن پہ کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ کچھ لوگ بس بلاوجہ ہی تنقید کرتے ہیں، یہاں کے چائے، پراٹھے بہت منفرد ہوتے ہیں اور یہ لوگ صفائی ستھرائی کا بھی خاص خیال رکھتےہیں۔ ان ڈھابوں، چائے خانوں کی وجہ ہی سے تو ہمارے شہر کی رونق میں چار چاند لگ گئے ہیں۔‘‘