خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں وزیر اعظم پاکستان کا خطاب کیا خوب تھا۔ صوبے کی حزب اختلاف نے علاقے کے ترقیاتی کاموں کے لئے میاں نواز شریف کو مدعو کیا۔ اور وزیر اعظم نے بھی کھلے دل سے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔ اس جلسے میں ان کے ہمراہ وفاقی وزیر اکرم خان درانی اور مولانا فضل الرحمٰن نے بھی تقاریر کیں۔ وزیراعظم کی تقریر کا ایک فقرہ تو اتنا برمحل اور برجستہ تھا کہ کیا کہنا۔ جناب وزیر اعظم نے فرمایا ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ یہ محاورہ ایک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ مغل شہزادے واجد علی کو جب جلا وطن کر دیا گیا تو ان کا ایک شاہی باورچی جو فارغ ہوگیا تھا اس کی شہرت سن کر ایک مال دار شخص نے اس کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا اور اپنے ساتھ کان پور لے گیا ایک دن اس نے سابقہ شاہی باورچی کو بلایا اور پوچھا کہ تم کونسا خاص پکوان بنا سکتے ہو۔ سابقہ شاہی باورچی سوچ میں پڑ گیا کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ جناب میں مسور کی دال بڑی شاندار بنا سکتا ہوں اس کے مالک کو حیرانی تو ہوئی مگر اس نے کہا چلو مسور کی دال بنائو۔اس زمانہ کے مطابق مسور کی دال کی تیاری کے جو مصالحہ جات خریدے گئے وہ کافی مہنگے تھے۔ مالک بہت حیران تھا کہ دال کے پکانے پر اتنے پیسے لگ سکتے ہیں۔ اس نے اپنے باورچی سے پوچھ ہی لیا کہ یہ پکوان اتنا مہنگا کیوں ہے باورچی کو انداز ہ ہو چکا تھا کہ اس کی ملازمت ختم ہو چکی ہے۔ تو اس نے تاریخی فقرہ کہا۔ ’’یہ منہ اور مسور کی دال۔‘‘
اب معلوم نہیں کہ ہمارے وزیر اعظم نے کس تناظر میں یہ مشہور جملہ شامل تقریر کیا۔ کیا اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اب کی بار باورچی کون ہے اور مالک کون؟ مگر یہ ضرور ہے کہ مغلیہ دور کا طرز حکمرانی آج بھی کیوں ضروری ہے۔ پورے ملک میں گزشتہ چند دنوں سے کرپشن کے حوالے سے پاناما لیکس کا شور ہرطرف گونج رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم جلسہ پی ٹی آئی نے لاہور میں کیا۔ پہلے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ اس جلسہ کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے حالانکہ جماعت اسلامی نے ہفتہ قبل ہی اس علاقے میں جلسہ کیا تھا۔ مجبوری کے عالم میں کپتان کو جلسے کی اجازت دے دی گئی۔ ابتدائی منصوبہ بندی کے مطابق چھٹی کے روز بھی چڑیا گھر کو سیکورٹی کے تناظر میں بند کروادیا گیا۔ اس دن گرمی بھی شدت کی تھی ۔ کپتان عمران خاں کے جلسے کے بارے میں متضاد دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ سرکار اور خادم اعلیٰ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پانچ ہزار کا مجمع تھا۔ میڈیا کے لوگوں کا اندازہ ہے تیس ہزار کے لگ بھگ تماشائی ہوں گے۔ کپتان عمران کے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے شیدائی پچاس ہزار کے قریب تھے۔ اصل میں فضا سے جائزہ لیا جائے تو پچاس ہزار ہی لوگ نظر آتے ہیں۔ اگر آپ ان کے درمیان ہوں تو بیس ہزار کے قریب ہی فدائی نظر آتے ہیں اگر خادم اعلیٰ کے لوگوں کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کی نفری نکال کر پانچ ہزار مجبور لوگ نظر آتے ہیں۔ کپتان کے جلسے کا حسن یہ تھا کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ عمران خان کو دیکھنے اور سننے کے لئے اکٹھے ہوئے ۔
اس جلسے میں عمران خان نے ایک عجیب سا دعویٰ بھی کردیا۔ کپتان نے میاں نواز شریف کو خبردار کیا کہ پاناما لیکس میں ان کے خاندان کی شمولیت کی وجہ سے وہ جیل بھی جا سکتے ہیں اس بات کو میڈیا نے کافی مشہور بھی کیا اور اس کے بعد ہی وزیر اعظم پاکستان کو بنوں کے جلسہ میں اعلان کرناپڑا ’’وہ گیدڑ بھبکیوں سے ڈرنے والے نہیں۔‘‘ اب یہ نہیں معلوم کہ وہ گیدڑ نوجوان شہزادے بلاول زرداری کو کہہ رہے تھے یا ان کا نشانہ اعتزاز احسن تھے۔ پھر میاں نواز شریف نے ایک اور پتے کی بات کہی ’’عوام اقتدار میں لائے، استعفیٰ مانگنے والے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔‘‘ اصل میں وزیر اعظم جمہوریت کی بات کرنے کے لئے ایسے جلسوں میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ’’جمہوریت‘‘ نے ہی اس ملک میں کرپشن کو پناہ دے رکھی ہے۔
اس وقت حزب اختلاف اپنی سفارشات مکمل کرچکی ہے اور حکومت وقت ان کو ماننے سے انکاری ہے۔ کمال یہ ہے کہ احتساب کے لئے کوئی بھی سامنے آنے کو تیار نہیں۔ ہمارے حساب دان جناب اسحاق ڈار اس مشکل مرحلہ پر ملک سے باہر باہمی مفاد کے دوستوں سے مذاکرات فرما رہے ہیں۔ ان کی کمی سب سے زیادہ وزیراعظم کو محسوس ہو رہی ہے۔ کرپشن نے پورے معاشرہ کو اپنی روش میں رنگ لیا ہے اس کو ختم کرنا آسان نہیں۔ پاکستان کی افواج نے اپنے نظام کے اندر کرپشن کے خلاف عملی کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق برائی کی جوئوں کے خلاف خالی کنگھا کرنے سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا، ضروری ہے کہ جوئوں کو ناخنوں کی مدد سے کچلا جائے۔ یہ کام صرف فوج ہی کر سکتی ہے اور فوج نے ضرب عضب میں اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کے لئے کرپشن کو بھی سہولت کار مان کر اس کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ اس وقت بھی ڈاکٹر عاصم کا مقدمہ اس ہی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے کہ جمہوریت کے نمائندے ڈاکٹر عاصم کے خلاف شہادتوں کو سیاسی مسئلہ بنا رہے ہیں۔
اس وقت جو بھی کرپشن کے خلاف بات کرتا ہے ہماری سرکار یہ سوچنے لگتی ہے کہ اس کے خلاف سیاست ہو رہی ہے۔ یہ پھل جمہوریت کے پودے کا ہے اور عوام اس پھل کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ جمہوریت ایک ایسا نشہ ہے جو خواص اور اشرافیہ کے لئے سکون اور راحت مگر عوام کے لئے مجبوری اور لاچاری بن جاتا ہے۔ اب میاں نواز شریف جگہ جگہ عوام کو تسلی دیتے نظر آتے ہیں اور ان کے لئے نت نئے اور پرانے منصوبوں کا دوبارہ فیتہ کاٹتے نظر آ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ان کی حلیف جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ کپتان کی حکومت میاں صاحب کے اشارے پر جب مرضی گرا سکتی ہے مگر اس سے میاں صاحب کی جمہوریت کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔ جمہوریت کی دلہن کا میک اپ اب اترتا نظر آ رہا ہے اگر اس کا چہرہ عوام کے سامنے مکمل آگیا تو عوام خود اس سے ہی منہ موڑ لیں گے۔
میاں صاحب اور زرداری صاحب کے پاس آخری موقع ہے کہ وہ ضد چھوڑ کر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کردیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ آپ کی قربانی اصل میں کرپشن کی موت ہوگی اور ایسا کرنا آپ کے لئے ضروری ہے ورنہ یہ قربانی آپ کے لئے کوئی دوسرا بھی دے سکتا ہے۔