• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ جیسے ماہر لسانیات نے اپنی مشہور کتاب A HAND BOOK OF URDU LITERATURE میں محمود غزنوی کے حملوں (998 تا 1030) کو اردو زبان کا عہد تاسیس قرار دیا ہے۔ ممتاز دانشور سید سجاد ظہیر کے مطابق قطب الدین ایبک کا دورِ آغاز اردو کا زمانہ ہے۔ محمود شیرانی کے مطابق اردو کا آغاز سندھ پر محمد بن قاسم کے حملہ سے ہوا۔ شیرانی نے اردو پنجابی میں زبانوں کے مابین جن مشابہتوں اور مماثلتوں کا ذکر کیا، ان کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔

:1 دونوں زبانوں میں واحد، جمع، تذکیر و تانیث کے قواعد ایک جیسے ہیں۔

:2 دونوں زبانوں میں اسمائے صفت الف اور مصادر ’’نا‘‘ کے اضافہ سے بنتے ہیں۔

:3 دونوں زبانوں میں خیر مبتدا کےجبکہ فعل اپنے فاعل کےمطابق آتا ہے۔

:4 دونوں زبانوں میں ماضی افعال ملتے جلتے توابع کے ذریعےبنتے ہیں۔

:5 دونوں زبانوں میں فعل مستقبل اور فعل امر بنانے کےطریقے یکساں ہیں۔

:6 دونوں زبانوں میں معروف مجہول، لازم و متعدی نیز دعائیہ و ندائیہ سمیت متعدد اصول ایک جیسے ہی ہیں۔

بہت سے مفکرین و محققین نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ ڈاکٹر سنیتی کمار چیڑجی لکھتے ہیں ’’ موجودہ زمانہ میں بھی پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق 8،9 سو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا اور اس بات کابھی امکان ہے کہ وسطی ومشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت تقریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو‘‘۔

پروفیسر احتشام نامور محقق اور نقاد ہیں۔ ان کے خیال میں پنجابی زبان کی تشکیل کا زمانہ بھی وہی ہے جو اردو کا ہے لہٰذا دونوں کا ماخذ کوئی تیسری زبان ہو سکتی ہے۔ تاہم پنجابی کو اردو کا ماخذ تسلیم نہیں کیا جاسکتا جبکہ دہلوی زبان کی موجودگی میں لاہوری زبان کی دہلی میں تشکیل پانے والی نئی زبان کا ماخذتسلیم کرنامحل نظر ہے۔ مسلمانوں کے سندھ پر قبضہ اور شہاب الدین غوری کےحملوں کی درمیانی مدت تقریباً دو سو سال بنتی ہے اور یہ مدت زبان بننے کے لئے کافی نہیں لیکن اس عرصہ میں کسی مخلوط زبان کے خط و خال ضرور اُبھر سکتے ہیں۔

برصغیر کے اسلامی دور میں فارسی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل رہی۔ جب انگریزوں نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے فارسی کے تمام تر آثار مٹانے کی کوشش میں فارسی کی جگہ اردو کو پروموٹ کرنے کافیصلہ کیا۔ اس کے لئے فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے پرنسپل سر جان گلکرائسٹ نے ملک کے طول و عرض سے میرامن دہلوی، حیدربخش حیدری اور رجب علی بیگ سرور جیسے جید علما ء کو بلوایا تاکہ وہ کلاسیکل فارسی کتب کو اردو کے سانچے میں ڈھال کر اس کے رہے سہے آثار بھی ختم کردیں۔

ان نامور اہل قلم کی ترجمہ کی ہوئی کتابوں نے پورے برصغیر کی علمی و ادبی دنیا میں اردو زبان کے موجودہ مقام کی مضبوط بنیادیں فراہم کردیں۔ آج جبکہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک الگ وطن حاصل کرلیا ہے تو یہ زبان ان کی تہذیب و ثقافت کی پہچان بن گئی ہے جس کابہت سا کریڈٹ فرنگی سرکار کو بھی دیا جانا چاہئے۔

اردوزبان میں دیگر زبانوں کے الفاظ کو بلا روک ٹوک اپنے اندر جذب کرلینے اور سمو لینے کی صلاحیت بے شک لاجواب اوربے مثال ہے۔ اس زبان میں عالمی ادب کے تازہ ترین تجربوں اور بدلتے اسالیب کا ساتھ دینے کی بھرپور صلاحیت کے ساتھ ساتھ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی اصلاحات کو اپنے اندر سمو لینے کی طاقت بھی موجود ہے بشرطیکہ اس طاقت کو درست انداز میں استعمال کرنے کی عقل بھی موجود ہو۔ بے شمار اصطلاحات میں فارسی عربی کے ٹیکے لگانے کی بجائے اندر AS IT IS اکاموڈیٹ کرلینا چاہئےلیکن یہ اک اور قسم کی بحث ہے۔ (ختم شد)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین