• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اگر تاج الدین کیس میں اگرتلہ کیس سازش ٹربیونل نہ بنتا تو شاید ہمارا مشرقی بازو، مشرقی پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا…!اور اگر اُس وقت کی عدلیہ غدار بنانے کی فیکٹری کا نوٹس لے لیتی تو یہ بات بنگالیوں کے خون رستے زخموں پر مرہم کا کام دیتی۔ چغل خوروں ،سیلف اسٹائل جاسوسوں اور مطلب براری کے بے رحم لشکروں نے پاکستانی سماجیات، سیاسیات اور ریاست کے خیمے اور بخیئے دونوں ادھیڑ کر رکھ دےئے ہیں۔ میں یہ کہنے میں کنجوسی نہیں کروں گا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس افتخار چوہدری، جسٹس اعجاز چوہدری اور جسٹس گلزار پر مشتمل سپریم کورٹ آف پاکستان کے فُل بنچ نے پاکستان میں برانڈڈ غدار پیدا کرنے والی فیکٹری کا دروازہ ہمیشہ کے لئے سیل کر دیا ہے۔ جی ہاں الطاف حسین کیس میں تاریخ کا رُخ بدلنے کے لئے جاری کئے گئے حالیہ فیصلے کے مطابق، یادش بخیر ولی خان اور این اے پی کے لیڈروں کے خلاف بننے والے حیدرآباد ٹربیونل نے وفاق پاکستان کی روح کو مجروح ہی نہیں شدید زخمی کیا تھا۔ اس سیاسی مقدمہ کا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ بھی سیاسی دشمنی کی تاریخ کا سبق آموز باب ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ مقدمہ بنانے والوں نے چارسدہ ولی باغ کے خاندان سے سیاسی مطلب پرستی اور حکومتی موقع پرستی جیسے وقتی اور سطحی اتحاد اور شراکت داری بھی کی اور ایک وقت میں جن پر غداری کا الزام لگایا اپنی باری آنے پر انہیں جمہوریت کی شمع کہہ کر گلے بھی لگایا۔ لیکن اگرتلہ اور حیدرآباد جیسے ٹربیونلز نے صوبوں کے درمیان کرائسز آف کانفیڈنس یعنی عدم اعتمادی کے بیج ہی نہیں بوئے بلکہ اسے سرد جنگ میں تبدیل کر دیا تھا ۔جس کا کچھ علاج اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ہوا اور اللہ کا خاص رحم اور کرم یہ کہ اسی وطن ساز وقت میں میرے پاس وزارت قانون و انصاف کا قلمدان تھا۔
الطاف حسین کیس میں سپریم کورٹ نے جس ماحول میں فیصلہ جاری کیا اس کو مدنظر رکھیں تو ایسا فیصلہ ماضی بعید کا کوئی بے پروا قاضی ہی دے سکتا تھا کیونکہ عدالت نے اسی فیصلے میں پاکستان کی تاریخی اور روایتی ریاستی سوچ کا دھارا تبدیل کر دیا ہے۔ ذرا دیکھئے ایک طرف ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں گریٹ برٹن لندن کی میٹرو پولیٹن پولیس، انسداد دہشت گردی کے سیل اور اینٹی منی لانڈرنگ فورس کی برق رفتار کارروائیاں۔ جبکہ قومی سطح پر متحرک ترین عدلیہ ، ہمہ وقتی بریکنگ نیوز چلانے والے میڈیا اور کراچی میں ووٹ کی سیاست کے نئے بیلنس اور ہر طرح کے اشتہاری نما ماحول میں سپریم کورٹ نے ٹھنڈے دل سے جوڈیشل ذہن کا استعمال کیا۔ اس فیصلے نے اس تاثر کو تحلیل کر دیا ہے کہ فیصلے ”پاپولرازم“ کے مطابق ہوتے ہیں۔ الطاف کیس اس اعتبار سے بھی تاریخی ہے کہ اسے ایسے وقت میں سنا گیا جبکہ کراچی بدامنی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس کے فیصلے کی بازگشت بھی روز سنائی دے رہی ہے۔کراچی میں بدامنی کی آگ انصاف کے دامن کو بھی جلا رہی ہے۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے زخم خوردہ اورآزردہ کراچی کے وکلاء اور ججوں کی دلجوئی کا مشکل کام اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ (کراچی بدامنی کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے روبرو کراچی رجسٹری میں میرے دلائل پر مبنی کتاب کراچی قتل عام میں بھی قابل مطالعہ مواد موجود ہے )۔اگر پاپولرازم کی لہر کو مدنظر رکھا جائے تو پھر الطاف کیس میں عالمی اخبارات اور ٹی وی کی سرخیاں بن سکتی تھیں لیکن سپریم کورٹ نے سیاست بازوں کی طرف سے مخصوص سیاست کاروں کو غدار ، نااہل اور مجرم گرداننے کی مہم اور سوموٹو کے آئینی اختیار کے دائرہ کار میں نئی جہت نکالی ہے جس سے آئین کا آرٹیکل 184(3)اور بھی بامعنی ہو گیا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے اور قومی المیہ بھی ہے کہ اگر کسی بڑے کے ساتھ کوئی اختلاف رائے یا نقطہ نظر کا تضاد ”پبلک“ ہو جائے تو وہ بونے اور ذہنی طور پر پستہ قد جنہیں شناخت کی بھوک اور عہدے کی طلب ہوتی ہے وہ کانا پھوسی، چغل خوری اور فرض کاری پر مبنی داستان گوئی کی انتہا کر دیتے ہیں۔ وہ ہر روز فریقین میں سے نمایاں یا طاقتور فریق کے پاس جا کر ازخود تراش کر وہ کہانیاں بیان کرتے ہیں کہ ان کے سامنے مقتدر کو برا بھلا کہا گیا اور پھر اپنی جعلی وفاداری اور صاحب کے مخالف پر تابڑ توڑ حملوں کی خیالی کہانی بھرپور ایکٹنگ کے ساتھ سناتے ہیں۔ جس میں شرلاک ہومز کا سسپنس، جان ریمبو کا ایکشن اور پرانی دہلی کے مصالحہ جات حسب ضرورت اور حسب ذائقہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ مجھے اپنے گاوٴں ہوتھلہ کی چونتیس سال پرانی وہ رات آج بھی یاد ہے جب گاوٴں والوں نے میرے کزن جو کہ یونین کونسل کا چیئرمین بھی تھا،کے گھر آ کر شور مچایا کہ آپ کی مکئی کی خشک کاٹی ہوئی جمع شدہ فصل کو آگ لگ گئی ہے ۔ جنہوں نے آوٴ دیکھا نہ تاوٴ اسلحہ نکالا اور مخالف فریق کے گھر للکارنے پہنچ گئے ۔ دوسری طرف مسجد کے لاوٴڈ اسپیکر سے اعلان ہو رہا تھا کہ پانی لائیں اور جلتی فصل بچائیں۔ پنجاب کے دیہاتی معاشرے میں یہ جرم عام ہے اسی لئے وارث شاہ نے اپنی عالمی شہرت یافتہ ہیر میں ایسی وارداتوں کا یوں ذکر کیا ہے :
اک جٹ دے کھیت نوں اگ لگی
ویکھو آ کے کدوں بجھاوندا ای
(ایک جاٹ کے کھیت میں آگ لگا دی گئی ہے دیکھیں وہ اسے کب بجھا پاتا ہے) ۔ جب مقدمہ درج ہوا تو کھو جی نے آکر آگ لگانے والے کے پاوٴں کا مولڈ بنایا۔ واردات کا کُھرا گاوٴں کے مولوی صاحب کے حجرے تک جا پہنچا۔جن کو عید پڑھنے کے موقع پر گاوٴں کے دوسرے گروپ کے ملکوں نے ذلیل کیا تھا اور مو لوی نے اپنا بدلہ لینے کیلئے بڑے ملکوں کے خلاف واردات ڈال دی تاکہ وہ ان کی طاقت کے ذریعے اپنا اسکور سیٹل کر سکے۔ پوٹھوہار کے ایک جدید شاعر نے اسی پر اپنا تازہ شعر مجھے سنایا جو میں آپ سے شیئر کرتا ہوں :
چَنگا کم نہ کِیتا کوئی، ایویں عُمر لنگائی چھوڑی
جس نے سُکے ٹانڈے تَکے اگ اُنہاں کی لائی چھوڑی
(عمر گزر گئی لیکن اچھا کام نصیب میں نہیں آیا کیونکہ جس کی خشک فصل نظر آئی اسے نذر آتش کرتا رہا )۔ اللہ کے آخری سچے رسول ﷺ اور محسن انسانیت ﷺ نے فتنہ پرور اور منفی ذہنیت پالنے والوں کا علاج یوں تجویز فرما رکھا ہے۔ ”ناراضی تین دن سے آگے نہ بڑھاوٴ“ اس میں حکمت یہ ہے کہ براہ راست بات فتنہ پروروں اور ستم گروں کا کردار ہمیشہ کے لئے دفنا دیتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے مواقع بال اور ناخن کی طرح ہوتے ہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ انہیں کاٹ دیا جائے۔ بال اور ناخن کٹنے کے بعد بھی انتہائی تیزی سے بڑھتے ہیں۔ سیاست کار پاکستان کے لئے پیدا ہونے والے موقع پر نیل کٹر اور استرے لے کر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں سب کو قومی دھارے میں شریک رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل ستائش ہے ۔ بالکل ویسے ہی جیسے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے مگر متعلقہ ادارے اور اشرافیہ کالا باغ ڈیم کے فیصلے کو تکیہ بنا کر خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔عالمی اور ایشیائی ادارے چیخ رہے ہیں کہ پاکستان کا پانی سوکھ رہا ہے۔ ہم پانچ دریاؤں کو گندہ نالہ بنتے دیکھ رہے ہیں لیکن مصلحت کی سیاست قومی مصلحت پر دھند کی طرح چھا رہی ہے۔ ہے کوئی جو پیاسے پاکستان پر توجہ دے…؟
تازہ ترین