پشاور(نمائندہ جنگ)پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس شکیل احمد نے کہا ہے کہ ملک کاآئین ہی مقدم ہے کسی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے کسی شہری کو اپنی حراست میں رکھے اور یا چھوڑ دے، خواہ کوئی کتنا ہی سنگین مقدمات میں مطلوب ملزم کیوں نہ ہو اسے قانون کے تحت اپنی صفائی کا موقع فراہم کرنا ہوگا ، جسٹس لعل جان خٹک نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا ہے کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں کہ وہ 3ایم پی او کے زمرے میں آتے ہیں یا نہیں پوراعلاقہ ایک آدمی سے تنگ ہے اور اور اُس کیخلاف کوئی شکایات تک درج نہیں ہوتی اسکا کیا مطلب ، صرف خام خیالی سے کچھ نہیں ہوگا ، آزادی قیمتی چیز ہے محض خام خیالی پر کسی کی آزادی کوسلب نہیں کی جاسکتا، ملک کاآئین مقدم ہے اور آئین کے تحت چلنا ہو گا۔ فاضل بنچ نے یہ ریمارکس ڈپٹی کمشنر کوہاٹ کی جانب زمین پر غیر قانونی قبضوں کے الزام میں تین ایم پی او کے تحت گرفتار ملزمان محمد حنیف اور سیف اللہ کی رٹ کی سماعت کے دوران دیئے ، ملزمان کے وکیل جان محمد ایڈووکیٹ نےعدالت کو بتایا کہ ہمیں وہ حکم نامہ بتائیں جسکے تحت اُنکے موکل کو 8جولائی کو گرفتار کیا گیا۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس کیس میں ملزم کو صرف خام خیالی پر گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اُسکے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں پولیس نے دیگر ایجنسیوں کیساتھ مل کر رپورٹ مرتب کرکے ڈپٹی کمشنر کو ارسال کی تاکہ ملزمان کے خلاف تین ایم پی او کے تحت کاروائی کی جا سکے ۔ جسٹس شکیل احمدنے استفسار کیا کہ قانون کے تحت اگر کسی کو گرفتار کرنا ہو تو پہلے اُسے خبردار کرنا ہوگا ، ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ عدالت میں ضمانت کیلئے آیا ہے تو اُنکو ان معاملات کا علم ہے۔ عدالت نے کہاکہ یہ ڈپٹی کمشنر کی مرضی پر نہیں آپ نے ملزم کو تحریری طور کیا لکھ کردیا ؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ کوہاٹ میں قبضہ مافیا کے خلاف شکایات مل رہی ہیں جس میں یہ بندہ بھی ملوث ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ قبضہ مافیا کے کیخلاف کوئی گواہی دینے کیلئے تیار نہیں کیونکہ انہیں جان کا خطرہ ہے ، جسٹس لعل جان نے کہا کہ اُنکے خلاف کوئی شکایت کرتا ہے تو تحریر ی طور پر لکھنا اُنکی ذمہ داری ہے۔ عدالت عالیہ نے ملزمان کی درخواست منظور کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کے پاس مچلکے جمع کرنے کے احکامات جاری کردیے ۔