• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدیم یونان کی دیو مالائی کہانیوں میں نارسس (Narcissus)نامی ایک خوبرو اور وجیہ شکل شکاری کا کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ خوبصورت شکاری ایک دفعہ پانی کے تالاب پر جاتا ہے تو پانی میں اپنا عکس دیکھ کر وہاں گھٹنو ں کے بل بیٹھ جاتا ہے اور اپنے عکس کو مسلسل دیکھتا چلا جاتا ہے ۔ اِسے پانی میں اپنا عکس اتنا خوبصورت اور دلکش لگتا ہے کہ یہ اپنی ذات کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ بھوک تنگ کرتی ہے تو بھی کھانے کے لئے نہیں جاتا کہ عکس چلا جائے گا ۔حتیٰ کہ شدید پیاس میں تالاب کے پانی کو ہاتھ نہیں لگاتا کہ عکس ٹوٹ جائے گا۔ کچھ روایات کے مطابق اپنی ذات کے عشق میں مبتلا یہ خوبصورت شکاری بالآخر بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو کر تالاب کے کنارے اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیتا ہے۔ اپنے معشوق کے ایک دیدار کے لئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے ، سختیاں اور مشقتیں برداشت کرنے اور قربانی دینے کے قصے ہر جگہ ملتے ہیں ۔اس قسم کے کردار ہماری مشرقی دیو مالائی کہانیوں اور پیار محبت کے قصوں میں بھی کافی بہتات سے پائے جاتے ہیں۔ کچے گھڑے پر دریا عبور کرنا ہو یا سنگلاخ چٹانوں کے بیچ نہر کھودنی ہو ، بھنبھور کے تپتے صحرا کی خاک چھاننی ہو یا جنگل بیلے میں کانٹوں سے پاؤں زخمی کرانے ہوں، یہ تمام صعوبتیں ہمارے مشرقی عاشق صاحبان برداشت کر چکے ہیں ۔ اپنے محبوب کے لئے یہ سب قربانیاں اپنی جگہ مسلّم مگر خود اپنی ذات کے عشق میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے میدان کے سُرخیل بلاشبہ آنجہانی نارسس صاحب ہی ہیں ۔ انکی اس ”قربانی“ کو مدنظر رکھتے ہوئے نفسیات کے ماہرین نے اپنی ذات کے عشق میں مبتلا ہونے کے رویّے کو Narcissismکا نام دیا اور اردو میں اس کے لئے نرگسیت کی اصطلاح ٹھہری۔ اپنی ذات سے عشق فرمانے والے افراد بڑے مزیدار قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ یہ بلاتفریق دنیا کے تمام ملکوں اور معاشروں میں پائے جاتے ہیں۔ اپنے پیارے پاکستان میں بھی ایسے باکمال لوگو ں کی کوئی کمی نہیں۔یہاں تقریباً ہر دوسرا شخص اپنی ذات میں ایک انجمن ہے اور وہ آپ کو اپنی ہمہ جہتی ، قابلیت اور کردار کے ایسے قصے سنائے گا کہ بندے کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اتنا قریب رہتے ہوئے بھی ہم موصوف کی ان خصوصیات کا کھوج نہیں لگا سکے۔کچھ لوگوں کے خیال میں اپنی ذات سے عشق فرمانے والے نرگسیت کے شکار لوگوں کے قریب رہنا بڑا دلچسپ مگر کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ایک لطیفہ مشہور ہے کہ نرگسیت کے شکار لوگوں کا ایک بھرا ہوا جہاز ہائی جیک کر لیا گیا ۔ہائی جیکرز کا مطالبہ تھا اگر ان کی ڈیمانڈ پوری نہ کی گئی تو وہ ہر گھنٹے بعد ایک شخص کو چھوڑتے رہیں گے۔ سنا ہے کہ مطالبات مان لئے گئے تھے ۔ شاید ہم میں سے ہر ایک کے حلقہ احباب میں کوئی نہ کوئی ایسا نادر نمونہ ضرور موجود ہوتا ہے اور ہم بھی پچھلے 10 سال سے پروفیسر اے ۔ڈی گُجر (المعروف پروفیسر دُھوتا ) کی سنگت نبھا رہے ہیں۔ پروفیسر دُھوتا سے مختلف مواقع پر ہونے والی بحث کا خلاصہ یہ ہے اگر پاکستان 4ستونوں پر کھڑا ہے تو کم از کم ایک ستون پروفیسر صاحب کے دم سے ہی ہے۔ پروفیسر کہتے ہیں پہلے حکومت نے انہیں فلاں کالج میں پرنسپل تعینات کیا ۔کالج میں کافی گند تھا جو انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے چند مہینوں میں صاف کر لیا اور پھر دوسرے کالج کا گند صاف کرنے کے لئے انہیں بھیجا گیا ۔ قصہ مختصر پچھلے دو ایک سال میں وہ تقریباًپنجاب کے آدھے کالجوں کا ”گند“ صاف کر چکے ہیں۔دوستوں کی محفل میں کوئی لطیفہ سنائے تو پروفیسر دُھوتا بہت سنجیدہ ہو کے بیٹھے رہتے ہیں۔ کچھ ہی دن بعد انہیں دوستوں میں بیٹھ کر وہی لطیفہ پروفیسر صاحب خود سناتے ہیں تو توقع کرتے ہیں کہ سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائیں گے۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو پروفیسر کہتے ہیں کتنے بدذوق اور جاہل لوگ ہیں۔ایک سادہ سا لطیفہ بھی انجوائے نہیں کر سکتے ہیں۔ پروفیسر دُھوتا کے دوستوں کی بدقسمتی کاایک اور دور تب شروع ہواجب پروفیسر نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ”فیس بُک“جوائن کر لی ۔ پروفیسر فیس بُک کی اپنی ”دیوار “پر کوئی تصویر ٹانکتے یا کوئی کمنٹ لکھتے توکالج سے دو دن کی چھٹی لیکر اگلے اڑتالیس گھنٹے کمپیوٹر کے سامنے ہی بیٹھے رہتے اور اس سلسلے کی باقاعدہ ایک ڈائری مرتب کرتے، فلاں تصویر یا اسٹیٹس اپ ڈیٹ پر اتنے ”لائیکس“ کِلک ہوئے ہیں۔ جس طرح کہتے ہیں خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے، اسی طرح پروفیسر صاحب سب سے پہلا کمنٹ اور پہلا ” لائیک“ خود ہی ٹھوکتے اور سب دوستوں پر بھی لائیک کرنا واجب ٹھہرتا۔ اتنا ہوتا تب بھی ٹھیک تھا۔حد تو یہ کہ پروفیسر ُدھوتا نے ان ”لائیکس“ کا باقاعدہ بریک اپ ڈائری میں لکھا ہوتا مثلاً اتنے ”لائیکس“ بیوروکریٹس کی طرف سے، اتنے پارلیمنٹیرینز کے، اتنے پروفیشنلز کے، اتنے مردوں کے اور اتنے خواتین کے۔ ہمارے جیسے عامیوں کے لئے ”Others“ کا خانہ ہوتا۔ ایک دفعہ اس طرح ایک تصویر” ٹانگنے“ کے بعد فون کیا۔ کہنے لگے دیکھی پھر تصویر؟ کتنا پیارا لگ رہا تھا۔ہم نے ہاں میں ہاں ملا کر جان چھڑائی۔ پروفیسرکی ازدواجی زندگی کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ایک دفعہ ہمیں کہنے لگے یار دیکھو میں ڈبل ایم اے ہوں۔ کالج کا پرنسپل، اتنے کالجز کا” گند “صاف کر چکا ہوں۔ دنیا میری صلاحیتوں کی معترف ہے۔جوانی میں”لیڈیزکِلر“رہا ہوں مگر اس بیوقوف عورت کو میرا پتہ ہی نہیں۔ میری اہمیت اور صلاحیتوں کا احساس ہی نہیں ہے۔ ایک عام خاوند کی طرح ”Light“ لیتی ہے مجھے۔ ایک دفعہ دوستوں کی محفل میں بیٹھے ہوئے ایک دوست نے پروفیسر دُھوتا سے پوچھا جناب آپ کو کبھی کسی لڑکی سے عشق ہوا؟ کہنے لگے ہاں۔ دوستوں نے پوچھا کیسی لڑکی تھی؟کہنے لگے جب وہ مجھے دیکھتی تھی اس وقت اس کی آنکھیں بہت پیاری لگتی تھیں۔ کہنے لگے مگر ہماری زیادہ دیر چل نہیں سکی کیونکہ وہ ہر وقت صرف اپنی ہی باتیں کرتی تھی۔ میری صلاحیتوں اور خوبصورتی کا اسے اندازہ ہی نہ ہو سکا۔
کچھ عرصہ قبل پروفیسر صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ کر سرکاری ملازمت کو خیرباد کہا اور اس کے بعد کسی حد تک گوشہ نشین سے ہو گئے۔دوستوں سے ملنا جلنا بہت کم کر دیا۔سارے دوست اس صورتحال پر کافی پریشان ۔ پروفیسر صاحب جیسے بھی تھے ہمارے دوست تھے اور ہمیں ہر صورت عزیز تھے۔ اگلے دن تمام دوستوں کو پروفیسر کا ایک ایس ایم ایس آیا میرے گھر چائے پر تشریف لائیں ۔ تمام دوست شام کو پروفیسر صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ پہلے تو دوستوں نے شکایت کی جناب اتنا عرصہ سے کوئی دیدار نہیں، کوئی ملنا جلنا نہیں۔ پروفیسر نے ٹھنڈی آہ بھری اور پھر بولنا شروع کیا۔ کہنے لگے”یار میں نے تو ساری زندگی جَھک ہی ماری ہے۔ ساری زندگی اپنی ذات کا غلام رہا۔میری تمام زندگی اپنی ذات کے گرد ہی گھومتی رہی ۔عشق کیا تو اپنی ذات سے، پیار کیا تو اپنی ذات سے۔ ہر وقت دوسروں سے ممتاز نظر آنے کی کوشش میں پتہ نہیں کیا کیا پاپڑبیلے۔ اچھے دوست ناراض کئے ۔ساری زندگی آئینے میں اپنی ہی شکل دیکھ کر خوش ہوتا رہا“۔ پروفیسر دُھوتا آج تھوڑامغموم سے نظر آر ہے تھے۔ چائے کی سپ لیکر دوبارہ بولنا شروع کیا”یارمشہورہونا کوئی بُری بات نہیں مگر ہر وقت جھوٹی شہرت کے چکر میں پڑے رہنابھی اشرف المخلوقات کو زیب نہیں دیتا ۔ شہرتِ عام سے بقائے دوام تک کا سفر مشکل سہی مگر انسان کو ہمیشہ اس کی کوشش کرتے رہنا چاہئے کیونکہ دراصل فنا میں ہی بقا کا راز مضمر ہے۔ہم تو اپنی زندگی گزار چکے۔ تم نوجوان ہو کوشش کرو ہماری طرح خود پرستی کا شکار نہ ہو جانا“۔ سارے دوست جانے کے لئے کھڑے ہوئے تو پروفیسر دُھوتا بول اُٹھے۔ ٹھہرو بابا فرید گنج شکر  کا شعر سنتے جاؤ
فریدا ”میں “ نوں مار کے مُنج کرنِکی کر کر کُٹ
بھرے خزانے رب دے جو بھاوے سو لُٹ
شعر سن کر تمام دوست گھر کے لئے روانہ ہو گئے۔ راستے میں پروفیسر دُھوتا کی باتیں اور گنج شکر  کا شعرکانوں میں اس طرح کی آوازیں پید ا کر رہے تھے جیسے کسی ریلوے اسٹیشن سے تیز رفتار ٹرین گزرنے کے بعد پلیٹ فارم پر کھڑے لوگوں کے کان ایک لمحے کے لئے شاں شاں کی آواز سے گونج اٹھتے ہیں۔
تازہ ترین