گزشتہ دنوں تھرپارکر میں ایک ایسا افسوسناک واقعہ منظرعام پر آیا ہے جس نے ملک بھر کے امن پسند شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی، سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہٹا کٹا شخص کم عمر غریب ہندو بچے کو زدوکوب کرتے ہوئے ہراساں کررہا ہے، وہ بچے سے زبردستی ﷲ اکبر کا نعرہ لگوانے کے بعد بھگوان کی شان میں گستاخانہ کلمات کی ادائیگی کیلئے مجبور کرتا ہے، مظلوم بچے کے چہرے سے خوف عیاں ہے، وہ ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کررہا ہے لیکن خوفِ خدا سے عاری شدت پسند طاقت کے نشے میں فرعون بنا ہوا ہے۔میری معلومات کے مطابق یہ واقعہ ایک ماہ پرانا ہے اور مظلوم ہندو بچے کا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے ہے جو دیہاڑی پر چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرکے اپنے کنبے کا پیٹ پالتا ہے۔صوفیائے کرام کی دھرتی سندھ کا صحرا ئے تھر دنیا بھر میں مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے جانا جاتا ہے،حالیہ مردم شماری نتائج کے مطابق تھرپارکر کی آبادی ساڑھے سولہ لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں نصف آبادی کا تعلق ہندو دھرم سے ہے، انگریز سامراج سے آزادی کے موقع پر پورے برصغیر میں مذہبی بنیادوں پر دنگا فسادعروج پر تھا لیکن صحرائے تھر کے باسی مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کے مضبوط بندھن میں بندھے ہوئے تھے، بانی پاکستان قائداعظم نے گیارہ اگست کی تقریرمیں ہندو کمیونٹی کو پاکستان سے نقل مکانی نہ کرنے کی اپیل کی جس کے جواب میں میرے بڑوں سمیت بے شمار ہندو گھرانوں نے پاک سرزمین کو اپنی دھرتی ماتا بنا لیا، ہندو دھرم کی تعلیمات کے مطابق ایک ہندو باشندے کی اپنی سرزمین سے والہانہ محبت اور غیر مشروط وفاداری اسکے ایمان کا حصہ ہے۔ مذکورہ ویڈیو وائرل ہوتے ہی پاکستان ہندوکونسل کا سخت ردعمل سامنے آیا، سوشل میڈیا پر ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ ٹاپ ٹرینڈز میں اول نمبر پر آگیا،سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر چند گھنٹوں میں ہزاروں ٹویٹس مظلوم ہندو لڑکے کی حمایت اور شرپسند شخص کو کڑی سزا دینے کے مطالبے کیلئے کی گئیں، ٹی وی چینلز نے بھی اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے افسوسناک واقعے کی مذمت کی۔اس حوالے سے میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں سندھ پولیس بالخصوص ایس ایس پی تھرپارکر کو جنہوں نے پاکستان ہندو کونسل کے مطالبے پر نہ صرف ایف آئی آر کاٹی بلکہ فوری طور پر شرانگیزی میں ملوث ملزم کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کردیا۔ اس حوالے سے میرا موقف بالکل واضح ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب اپنے ماننے والوں کوایک دوسرے کا احترام سکھاتے ہیں،ہر مذہب انسان کوخالقِ حقیقی سے جوڑنے کیلئے خدا کے بندوں کی خدمت کا درس دیتا ہے، خدا تک رسائی کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک منزل تک پہنچنے کیلئے دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ حالیہ غیرذمہ دارانہ فعل نے ثابت کیا ہے کہ چند ناسمجھ لوگ دوسرے مذاہب کی توہین کرنا نیک عمل سمجھتے ہیں،شرانگیزی پھیلانے والے یہ لوگ دنیا کے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، یہ پانچ فیصدی شرپسند عناصر کسی بھی وقت کوئی ایسا ناپسندیدہ فعل سرانجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیںجس سے پرامن بقائے باہمی کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے،ایسے شدت پسندانہ اقدامات کو جواز بناتے ہوئے دوسری طرف کے شر پسند عناصرکو بھی دوطرفہ نفرتیں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے،تاہم یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ حالیہ شرمناک واقعے کے بعد پاکستان میں بسنے والوں نے مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر حق و انصاف کا ساتھ دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست میں بسنے والوں کا رویہ پوری دنیا کیلئے ایک قابلِ تقلید مثال ہونا چاہیے، اگر ہمارے پڑوس میںاقلیتوں کے خلاف کوئی غلط حرکت کی جاتی ہے تو ہمیں اسکی آڑ میں اپنے ملک میں بسنے والی محب وطن اقلیتوں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ پاکستان میں بسنے والوں کی اکثریت مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے پر یقین رکھتی ہے، آئینِ پاکستان کے تحت بھی ملک کے تمام شہری برابر ہیں،آئینی طور پر غیرمسلم شہریوں کو اپنے مذہبی معاملات کی ادائیگی کیلئے مکمل آزاد ی میسر ہے،کسی بھی شہری پر مذہبی معاملات میں کسی قسم کا کوئی جبر نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ واقعے کے بعد میرا ردعمل جاننے کیلئے مجھ سے مختلف عالمی میڈیا نمائندگان نے بھی رابطہ کیا، میں نے اپنے طور پر بھرپور کوشش کی کہ اس قابلِ مذمت واقعے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سرگرم عناصر کے پروپیگنڈے کا زور توڑا جائے ، لیکن بدقسمتی سے میرے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں کہ ماضی میں بھی ہندو مندروں کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود پراہلاد مندر ملتان میں ہولی کیوں نہیں منائی جاسکی؟ ۔ صحرائے تھر کے حالیہ واقعے کی ویڈیو انفرادی سطح پرشدت پسندی کا ایک واضح ثبوت ہے، اپنی ایک اورویڈیو میں شرپسند شخص ہندو دھرم کی مقدس ہستیوں کے بارے میں ہرزہ سرائی کررہا ہے۔ آج ملک بھر کی ہندو کمیونٹی سخت غم و غصے میں مبتلا ہے، ہمارا جائز مطالبہ ہے کہ شدت پسند ی میں ملوث عناصر کے خلاف بلاسفیمی قوانین کی دفعات 295اے اور298تعزیرات ِ پاکستان کے تحت سخت کارروائی کرتے ہوئے عبرتناک سزا دی جائے ۔صوبائی اور وفاقی حکومت کیلئے بھی ایک امتحان ہے کہ وہ معاشرے میں ہر مذہب کا احترام یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائیں ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)