میرے ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک پاکستانی صحافت میں جو سب سے بڑی خبر بریک ہوئی وہ عارف نظامی صاحب نے کی تھی جس نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ایک صبح انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کی Leadاسٹوری تھی ’’صدر آج اسمبلیاں توڑ دیں گے‘‘ یہ جناب عارف نظامی کی خبر تھی جو اس وقت ’’دی نیشن‘‘ کے ایڈیٹر تھے اور کبھی کبھار خود بھی کوئی خبر فائل کردیتے تھے لیکن ’’بڑی خبر‘‘۔ انہی کی خبر ترجمہ ہو کر گروپ کے اردو اخبار ’’نوائے وقت‘‘ کی بینر ہیڈلائن بنی جس میں عارف نظامی صاحب کی خبروں کے لئے ’’نامہ نگار خصوصی‘‘ کی کریڈٹ لائن مختص تھی۔ ایک رپورٹر سمجھ سکتا ہے کہ جناب عارف نظامی نے جتنی بڑی خبر فائل کی تھی ایسی خبر کتنا بڑا جوا ثابت ہو سکتی ہے، جو کسی بھی صحافی کی ساکھ اور کیریئر اڑا کے رکھ سکتی ہے مگر یہ ایک نہایت ذمہ دار صحافی کی خبر تھی جو آخری وقت تک کالم نگاری کرتے رہے اور بطور اینکر ٹی وی پر شو کر رہے۔ وہ الیکٹرونک میڈیا پر بھی انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے رہے، ہم عصر صحافیوں میں اُنہیں سب سے زیادہ اور انتہائی معتبر ذرائع حاصل رہے، میرے خیال میں ان کے بعد یہ اعزاز محترم نصرت جاوید کو حاصل ہے۔
آخری برسوں میں عارف نظامی نے بطور تجزیہ کار اپنے ٹی وی شو میں ریحام خان کی طلاق سمیت متعدد تہلکہ خیز خبریں Breakکیں جن سے سیاسی منظر نامے پر خاصے بھونچال برپا ہوئے، خاص کر ’’فرسٹ لیڈی‘‘ کی طلاق کے Scoopپر وزیراعظم عمران خان شدید برہم ہوئے مگر ایک ذمہ دار صحافی کی لگ بھگ سبھی بڑی خبریںآنے والے دنوں میں وقت نے سچ ثابت کیں۔ یہاں تک کہ موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ’’رخصتی‘‘ کی بابت گزشتہ برسوں کے دوران متعدد مواقع پر میڈیا میں بھونچال اٹھا، خاص کر جب انہیں نیب میں طلبی کا پہلا نوٹس بھیجا گیا مگر جناب عارف نظامی نے اپنے شو میں اس تاثر کو رد کرتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ کہا ’’وزیراعلیٰ کہیں نہیں جارہے، جب بھی گئے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب ایک ساتھ جائیں گے‘‘۔
اگرچہ عارف نظامی کی پرورش اور پیشہ ورانہ تربیت جناب مجید نظامی جیسی رجعت پسندشخصیت کے زیر سایہ ہوئی لیکن جونہی انہیں آزادانہ طور پر اپنا پہلا Ventureکرنےکا موقع ملا ایک مختلف نظامی سامنے آیا۔ امریکہ سے جرنلزم پڑھے عارف نظامی نے بطور ایڈیٹر اپنے گروپ کے پہلے انگریزی اخبار ’’دی نیشن‘‘ کو خاصے مختلف زاویہ فکر کا حامل رکھا جس میں ایک قدرے پروگریسو اور روشن خیال نظامی کی جھلک واضح نظر آتی تھی، خُود اپنی شخصیت اور مزاج میں بھی وہ جناب مجید نظامی سے اس قدر مختلف تھے کہ ان کے تیزی سے بڑھتے وسیع تعلقات اور حلقہ احباب اس کی گواہی دیتے ہیں۔ غالباً اسی بنا پرپیپلز پارٹی کے بیرسٹر چوہدری اعتزاز احسن جیسی لبرل و ترقی پسند شخصیت کے ساتھ ان کا تعلق دوستی میں بدل گیا۔ چند برس قبل انہوں نے اپنے ایک کالم میں ذمہ دار اعلیٰ سطحی فوجی انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے پورے تیقن کے ساتھ اس الزام کو بےبنیاد قرار دیا جو گزشتہ کئی دہائیوں سے چوہدری اعتزاز احسن پر لگتا چلا آ رہا تھا کہ بطور وزیر داخلہ انہوں نے مجوزہ ’’خالصتان‘‘ کے لئے سرگرم سکھوں کی لسٹیں انڈین پرائم منسٹر راجیو گاندھی کے دورہ پاکستان کے موقع پر بھارتی حکومت کو فراہم کی تھیں اور یوں جناب عارف نظامی نے اعتزاز احسن کی ذات یا کردار پر لگے اس دیرینہ الزام کا داغ دھویا۔
ان کے چچا جناب مجید نظامی کے ذاتی تعلقات حکمرانوں اور سیاستدانوں میں پرویز مشرف اور نواز شریف، شہباز شریف اور ان کے والد میاں شریف تک محدود رہے جبکہ ان کے ذاتی بےتکلف دوستوں میں جسٹس جاوید اقبال، جسٹس آفتاب فرخ اور عزیز قریشی سمیت وہی پانچ افراد شامل رہے جن کے ساتھ وہ ایک عرصہ لارنس گارڈن میں صبح کی سیر کیا کرتے تھے، انہی شخصیات کی سفارش وہ خاطر میں لاتے تھے جبکہ نواز شریف، آصف زرداری اور چوہدری برادران سمیت ملک کی لگ بھگ سبھی چوٹی کی سیاسی شخصیات اور قیادتوں کے ساتھ عارف نظامی کے ذاتی تعلقات بہت جلد قائم ہو گئے تھے۔ اپنے چچا اور کسی حد تک Mentorجناب مجید نظامی اور ان کی شخصیت میں ایک دوسرا بڑا فرق یہ تھا کہ انہوں نے کبھی کسی آمر اورسیاسی قیادت کے مابین رابطہ کار کا کردار ادا نہیں کیا۔ قدرے پروگریسو، لبرل اور روشن خیال شخصیت کے مالک عارف نظامی مزاجاً کسی حد تک ’’ڈاؤن ٹو ارتھ‘‘ تھے۔
عارف نظامی اپنے بزرگ جناب مجید نظامی کے برعکس اس قدر لچکدار شخصیت کے مالک تھے کہ بطور ایک میڈیا ہاؤس مالک جو طویل عرصہ سینکڑوں لوگوں کو نوکری دیتے رہے، حالات بدل جانے پر انہوں نے خود جنگ گروپ میں بطور کالم نگار ملازمت قبول کر لی، بعد میں انہوں نے ایک حقیقت پسند شخصیت ہونے کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر قومی میڈیا گروپوں میں بھی بلا تامل ایک پروفیشنل کے طور پر اپنی خدمات فراہم کیں۔ راقم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ میرے ’’باضابطہ‘‘ صحافتی کیرئیر کا آغاز بھی جناب عارف نظامی کے ہاتھوں ہوا جب 1984میں کسی صحافتی ادارے میں مجھے پہلی نوکری ملی۔
میں ایک روز مال روڈ پر گھومتا پھرتا ’’نوائے وقت‘‘ کے دفتر چلا گیا جو تب پرانی بلڈنگ میں ہوا کرتا تھا، مدعا بتانے پر مجھے نیوز روم میں چیف نیوز ایڈیٹر جناب وحید قیصر سے ملنے کو کہا گیا جنہوں نے شیشے کی دیوار کے پار ملحقہ وسیع کمرے میں بیٹھے جناب عارف نظامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جا کر ملوں، جناب عارف نظامی نے ریڈیو پاکستان کے نیوز بلیٹن کا انگلش ٹرانسکرپٹ مجھے تھماتے ہوئے پہلے صفحے پر چھپی خبر کا ترجمہ کرنے کو کہا اور ترجمہ دیکھتے ہی مجھے واپس جا کر وحید قیصر سے ملنے کو کہا اور یوں اگلے ہی روز بطور سب ایڈیٹر میری پہلی اخباری ملازمت کا آغاز ہوا۔