کراچی (ٹی وی رپورٹ) شہباز شریف نے ہمیشہ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے تاہم مفاہمت کے عمل سے بھی لوگ باہر ہوئے ہیں ۔ شہباز شریف نے نیا لفظ متعارف کرادیا ہے کہ مفاہمت نہیں قومی مصالحت کہا جائے ۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ شہباز شریف کی نظر میں بہتر حکمت عملی کیا ہوتی ہے ۔لگ یہ رہا ہے کہ شہباز شریف سب کو بتانا یا دکھانا چاہ رہے ہیں کہ ان کا موقف شروع سے درست تھا جس کو نہ مانا گیا جو ن لیگ کو بھاری پڑا ہے ۔دراصل شہباز شریف تنقید نواز شریف کے بیانیہ پر کررہے ہیں یہ کہے بغیر کہ یہ کس کی حکمت عملی تھی ۔
یہ کہنا تھا تجزیہ کار سہیل وڑائچ ، ارشاد بھٹی ، ریما عمر اور مظہر عباس کا جو جیو نیوز پروگرام ”رپورٹ کارڈ “ میں میزبان سارہ الیاس کے پوچھے گئے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ سہیل وڑائچ کا کہنا تھاکہ شہباز شریف کی شروع سے رائے مفاہمتی سوچ رکھنے والی ہے وہ ہمیشہ ہی مزاحمت کے بیانیہ کی مخالفت کرتے رہے ہیں ۔
شہباز شریف نے ہمیشہ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے تاہم اس پر شہباز شریف سے اتفاق کرنا مشکل ہوگا کیونکہ مفاہمت کے عمل سے بھی لوگ باہر ہوئے ہیں جس کی مثال ق لیگ ہے جو 2008ء میں مفاہمت کے باوجود باہر ہوگئی اس کے علاوہ ایک او رمثال محمد خان جونیجو کی ہے جن کو جب وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا تو انہوں نے کوئی احتجاج نہ کیا اور خاموشی سے مسلم لیگ جوائن کرلی ۔
انہوں نے کہا کہ تاہم آپ کا بیانیہ مفاہمت کا ہوتا یا مزاحمت کا نتیجہ تو یہی نکلنا تھا جو نکلا ہے ۔ تجزیہ کار ارشاد بھٹی کا کہنا تھا کہ وہ شہباز شریف کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرتے کہ ن لیگ کی حکمت عملی درست ہوتی تو آج نواز شریف وزیراعظم ہوتے ۔
انہوں نے کہا شہباز شریف جب بھی کوئی بیانیہ دیتے ہیں تو مجھے رونا آجاتا ہے ان کے دکھی بیان کو سن کر دل میرا حلق میں آجاتا ہے کیونکہ ان کے جو شکوے اور گلے ہوتے ہیں وہ اپنی بھتیجی اپنے بھائی اور اپنی پارٹی سے ہوتے ہیں
کمال بات ہے کہ ہر مرتبہ ان کو وزارت عظمیٰ قریب سے چھو کر گزر جاتی ہے جو شخص وزارت عظمیٰ سے اتنا قریب ہو کہ مہینہ قبل ہی کابینہ بھی سلیکٹ کرلے اور پھر بھائی اور بھیتجی کی وجہ سے اس سے دور ہوجائے تو پھر اللہ ہی خیر کرے ، شہباز شریف نے نیا لفظ متعارف کرادیا ہے کہ مفاہمت نہیں قومی مصالحت کہا جائے ۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ شہباز شریف کی نظر میں بہتر حکمت عملی کیا ہوتی ہے ۔