• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تیونس کے حبیب بورقیبہ کو ہندوستان کے اورنگزیب عالمگیر جتنے طویل اقتدار سے عالمگیر کی طرح اللہ تعالیٰ نے ہی ریٹائر کیا تھا۔ ورنہ بوڑھا اورنگزیب عالمگیر جس کے تین بیٹوں کے کوئی نام تک بھی نہیں جانتا ۔ ظلِ الٰہی اور امیرالمومنین کے عہدے سے کبھی ریٹائر نہ ہوتا۔ یہ تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے یا قدرت نے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے کہ حبیب بورقیبہ نے جاتے جاتے تیونسی معاشرت سے ویسا ہی سلوک کیا جو عالمگیر نے ہندوستان کی ریاست سے کیا تھا۔ مصر کے معزول صدر مرسی کی کرسی کا قصّہ اس صدی کے مسلم طرزِ حکمرانی کی ایک اور داستان ہے۔ جس کے شور وغل میں کچھ تاریخی حقائق دھندلا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی المیہ ہی ہے کہ یا تو تاریخ فاتح گروہ لکھتا ہے یا درباری عرضی نویس۔ جب کہ اصل واقعات کو غدر، بغاوت، سماج دشمنی اور وطن فروشی کے بھاری پتھروں تلے کچل کر مسخ کر دیا جاتا ہے۔ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔ اب اس صدی کی سیلولر، کمپیوٹر، سیٹلائٹ، فیکس، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس اور بریکنگ نیوز کی ٹیکنالوجی نے دنیا بدل کر رکھ دی ہے۔
لیکن میں آج پہلے بُوعزیزی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ بیروزگار نوجوان جسے تیونس کے بلدیاتی ادارے نے ایک سڑک پر ریڑھی لگانے کی اجازت نہیں دی ۔ اس ریاستی دہشت گردی اور کھلے ظلم کے خلاف تعلیم یافتہ بوعزیزی صحیح معنوں میں طائرِ لاہوتی بن گیا۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ جس سماج میں اور جس نظام میں وطن فروشی، بطن فروشی یا امن فروشی اور بدن فروشی کسی لائسنس کے بغیر کی جا سکتی ہے لیکن کسبِ حلال کی کوشش کے لئے ریاستی اداروں کی اونچی دیواروں کو پھلانگنا ضروری ہے ۔ اسی لئے بو عزیزی نے پرواز میں کوتاہی پیدا کرنے والے انسانوں کے اس جنگل نما معاشرے سے آسمانوں کی طرف پرواز کر جانا ہی بہترسمجھا۔ بُو عزیزی کی خود سوزی نے عربی سماج اس کے سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ریاستی ڈھانچوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ تیونس، لیبیا، مصر جیسے طرزِ حکومت زمین بوس ہو چکے اور ان کا طرزِ معاشرت نئے دور کے نئے تقاضوں کے سامنے کھڑا کانپ رہا ہے جبکہ عرب شاہی اور بو عزیزی سے پہلے کی تاریخی باقیات کے محلات بھی بہارِ عرب سے لرزاں اور چل چلاؤ کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ جزیرہ نما عرب میں آج کل مڈل کلاس بے روزگار نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کے خون سے جو نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے اس کے لئے عرب اسپرنگ یا بہارِ عرب کا نسخہ مغربی جمہوریتوں کی ایجاد کردہ اصطلاح ہے۔ یہ بھی محض حسنِ اتفاق ہے یا سوچا سمجھا حسنِ انتظام کہ جن ملکوں میں بہارِ عرب کی آندھیاں برپا کی گئیں وہاں کے معاشرے اور معاشرت عرب بعث پارٹی اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مطلق العنان حکمرانوں کے زیرِ تسلط چلے آ رہے تھے جبکہ ان کی سرحدوں سے جُڑے ہوئے وہ ممالک جہاں پچھلی صدی کے ظلِ الٰہی تاحال برسراِختیار ہیں وہاں افرنگی راوی کے بقول شانتی ہی شانتی ہے۔
اگر تعصب کی عینک پھینک کر دیکھا جائے تو بہارِ عرب یا عرب اسپرنگ صحیح معنوں میں غریب اور درمیانے طبقے کے مسلمانوں کے لئے خزاں کا جزیرہ ثابت ہوئی ہے۔ لیبیا سے ڈکٹیٹر شپ چلی گئی مگر جاتے جاتے کئی صدیوں پر محیط تعمیرِ نو کے لئے کھنڈرات کی قطاریں چھوڑ گئی۔ یہ کھنڈرات کی نہ ختم ہونے والی قطاریں جمہوریت پسند ملکوں کی دوستانہ بمباری کا تازہ ترین تحفہ ہیں۔ تیونس جسے عرب لاڈ پیار سے اپنے مکالموں اور نغموں میں ”یا تیونس الخضراء“ کہہ کر پکارتے تھے وہاں بھوک افلاس بیماری اور لاچاری کاحملہ ہے۔ مصر کے احرام گزشتہ تین سالوں سے سیاحوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں اور اونٹوں پر سوار سیاحتی قافلوں کی صداؤں کے منتظر ہیں۔ اب شرم الشیخ میں جاتے ہوئے عرب و عجم کے شیوخ بھی شرماتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے تیرہ سو سالہ پرانی مسجدِ بنوامیّہ شام میں خوںآ شام طریقے سے برباد کر دی گئی۔ صومالیہ، عراق اور افغانستان بابل اور نینوا کی تہذیبوں کا نقشہ بن گئے ہیں۔ مغرب کی اس نئی بہار اور امت مسلمہ کی بدبخت خزاں کے سائے اردن اور پاکستان سمیت بقیہ قابلِ ذکر مسلمان ملکوں پر منڈلاتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ صرف بزدلی اور بے حسی کا طوق اُتارنے کی ضرورت ہے۔ منتخب صدر مُرسی کی کرسی سے جو سلوک کیا گیا اس نے الجزائر کی تاریخ ہی نہیں دہرائی بلکہ مسلم ممالک کی بڑی طاقتوں میں مستقبل کے نقشے اور خدوخال کو واضح کر دیا ہے۔
میں نے پچھلے ہفتے لاہور میں میاں وحید کی کتاب ”پاکستان ایٹمی طاقت کیسے بنا“ کی تقریبِ رونمائی میں کھل کر تین باتیں کہی ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان کے لئے ایٹمی طاقت کے حصول کا اعلان کرتے ہوئے شہید وزیرِ اعظم بھٹو نے کہا تھا، ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹم بم بنائیں گے۔ پاکستانیوں نے گھاس کھائے بغیر ایٹم بم حاصل کر لیا مگر ہم دنیا کی وہ واحد قوت ہیں جو ایٹمی طاقت بن جانے کے بعد بھی گھاس کھا رہی ہے اور خاک چاٹ رہی ہے۔ کبھی ڈرون حملوں کی صورت میں اور کبھی ایبٹ آباد آپریشن کی شکل میں۔
دوسری بات یہ کہ ہر بڑے عالمی، علاقائی اور قومی مسئلے پر ہمارا ردِعمل انفرادی طور پر بکھرے ہوئے اور باہمی طور پر ناراض افراد اور جتھوں جیسا ہوتا ہے۔ کسی منظم قوم اور ڈسپلن شدہ معاشرے کی طرح یک زبان اور سوچا سمجھا ردِعمل نہیں ہوتا۔ تیسرا یہ کہ دنیا کی پانچ بڑی مذہبی تہذیبوں کے پاس ایٹمی طاقت ہے جن میں یہودی، عیسائی ، ہندو، بدھ اور مسلمان شامل ہیں لیکن نئے ورلڈ آرڈر کے تازہ خداؤں کے دل میں ”ایٹمی“ اسلامی جمہوریہ پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ پاکستان کی عسکری استعداد اس کانٹے کے درد پر نمک چھڑکنے کا کام کرتی ہے۔ جنرل عدیدی کے صومالیہ سے لے کر صدام حسین التکریتی کے عراق تک جس مسلمان ملک کے پاس کوئی فوجی قوت تھی اُسے مسمار اور زمیں بوس کیا جا چکا ہے۔ مصر کی تازہ جمہوریت کے عدالتی اور عسکری قتل پر دنیا کے بڑے جمہوری دارالحکومتوں میں سوگ تو کیا افسوس تک نہیں کیا گیا۔ اگر مصر کی تازہ جمہوریت ایک متنازع آئین پر اصرار نہ کرتی، ایک طبقے کی تشریح پر مبنی نظام طاقت کے زور پر لانے کا تاثر نہ دیتی، مصر کی گرتی ہوئی معیشت اور ٹوٹی ہوئی زخمی معاشرت کو مر ہم فراہم کر دیتی تو شاید بنگلہ دیش ماڈل تحریر چوک قاہرہ تک نہ پہنچ پاتا…!!!
ہم دعویٰ کرتے ہیں۔ پاکستان ایشین ٹائیگر ہے۔ لوڈشیڈنگ خاتمے کے قریب ہے۔ انصاف سستا بھی ہے اور فوری بھی۔ مہنگائی کنٹرول میں آ گئی۔ امن و امان خراب کرنے میں بیرونی ہاتھ ہے۔ یہ سب سچ ہے…؟ یا وہ سچ ہے جو ڈاکٹر شاہد الوری نے برسوں پہلے کہہ رکھا ہے
چاند پہ جا کے انہوں نے تو علم گاڑ دیا
اور سوئے چرخ، غبارے بھی نہ چھوڑے ہم نے
بیٹھے ، اس مصرع ِ اقبال کو دہراتے رہے
”بحر ِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے“
اس کا فیصلہ قوم نے کرنا ہے؟ ہمارے ڈانواں ڈول نظام نے؟ عالمی استعمار نے یا مُرسی ، کرسی اور بوعزیزی ماڈل نے…؟
تازہ ترین