• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

75ویں یومِ آزادی کے حوالے سے ہندوستان ٹائمز کے سیاسی ایڈیٹر اور میرے دیرینہ دوست ونود شرما نے مجھ سے درخواست کی کہ ’’پاکستان بھارت کو کیسےدیکھتا ہے؟‘‘کے حوالے سے ایک مضمون لکھوں۔ میں نے اس سے کہا کہ بھئی اس کا دارومدار اس پر ہے کہ آپ کس نگاہ سے بھارت کو دیکھتے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا نکتۂ نظر ہے۔ 

ایسے میں مجھے اپنے دوست اور نہایت عقابی کالم نگار عبدالقادر حسن مرحوم یاد آئے۔ ہمارے وفد کے جموں و کشمیر کے دورے کے دوران جموں یونیورسٹی کے طلبا و اساتذہ سے مختصر خطاب کرتے ہوئے ملک صاحب نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کا رشتہ ’’ٹام اینڈ جیری‘‘ کارٹون میں دو کرداروں کی باہم چپقلش اور لازم و ملزوم ہونے کے مصداق ہے۔ لڑتے بھی ہیں اور جدا بھی نہیں ہوتے۔ 

محبت اور نفرت کے اس عجب بندھن کے ماسوا دیکھا جائے تو ہزار ہا سال تک برصغیر میں بسنے والے لوگ مذہبی بنیاد پر دو اکثریتی مسلم اور ہندو ریاستوں میں منقسم کردیے گئے تھے اور فرقہ وارانہ فسادات نے ہر دو اطراف میں ایسی قیامت بپا کی تھی کہ جس کی مثال تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ 

بنگال اور پنجاب کی تقسیم سب سے ہولناک تھی اور بارڈر کی آڑی ترچھی لکیروں نے گھروں تک کو تقسیم کردیا تھا۔ بدقسمتی سے قومی تحریک آزادی کی قیادت اقلیتی سوال کو حل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی جس کے باعث خوفناک خون خرابہ ہوا جس کے زخم بھر کر بھی ہرے ہیں۔ 

قرار دادِ لاہور (1940) کو قبول کر لیا جاتا یا پھر کیبنٹ مشن پلان پر کانگرس راضی ہو جاتی تو برصغیر کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ بنگال تقسیم ہوتا نہ پنجاب اور نہ آبادیوں کا اتنا پُرہجوم انخلا اور فرقہ وارانہ خون خرابہ۔ انڈیا کبھی ایک قوم نہ تھا، نہ ہی اس کی تاریخ کا کوئی ایک سوتا ہے۔ 

دراوڑوں سے بہت پہلے اور آریائوں کے بہت بعد تک برصغیر میں جانے کہاں کہاں سے حملہ آور وارد ہوئے اور اس کی مٹی میں مر کھپ گئے۔ برطانوی سامراج نے پرانے، خود کفیل زرعی پیداواری نظام اور دیہی خلوت پسندی کو تباہ کرکے جدید استعماری ریاست کی بنیاد ڈالی۔ جاگیرداری کو مضبوط کرتے ہوئے گماشتہ سرمایہ داری کا تڑکا لگا دیا۔ 

مغلوں کے بعد انگریزوں نے برٹش انڈین ایمپائر تو کھڑی کردی تھی لیکن اس کی کثرت برقرار رہی، تقسیم ہوئی بھی تو برٹش انڈین ایمپائر۔ بھارت اور اس کی کانگریسی سرکار برطانوی سلطنت کی وارث ٹھہری اور اس سے توقع تھی کہ وہ ’’آگو قوم‘‘ کا کردار ادا کرتے ہوئے برصغیر کی اقدار اور سمت کا تعین کرے گی جبکہ ایک ’’کرم خوردہ‘‘ پاکستان شروع سے ہی اس مخمصے کا شکار رہا کہ اسے ایک دنیاوی قومی ریاست بننا ہے یا پھر ایک روحانی ملت۔ 

برصغیر سے علیحدگی کے اپنے مضمرات تھے کہ پاکستان بھارت سے کیسے مختلف نظر آئے یعنی ایک معکوس عکس (Reverse Image) کے طور پر بھلے اس سے کیسی ہی صورت بگڑ کر رہ جائے۔ اپنے جسم کے دو بازوئوں کے کٹ جانے کے غم میں کانگرسی قیادت تقسیم ہند کے پلان پہ دستخط کرنے کے باوجود بھارت کے مذہبی بٹوارے کو ماننے پہ تیار نہیں ہوئی۔

کشمیر پہ ہونے والی پہلی پاک بھارت جنگ سے کارگل کی مہم تک پاک بھارت تعلقات کی کشیدگی تھوڑے وقفوں کے بعد مستقل صورت اختیار کر گئی۔ کشمیر کی ہڈی دونوں ملکوں کے گلے میں پھنس کر رہ گئی جو نگلی جا سکی نہ اُگلی جا سکی۔ 

ریپلکن انڈیا نے اگر سیکولر ازم، جمہوریت اور عالمی عدم وابستگی کا راستہ دکھایا بھی تو پاکستان اس کے علاقائی تھانیدار بننے کے مونرو ڈاکٹرائن سے بدک کر مخالف سمت چل نکلا۔ سول و فوجی نوکر شاہی کی بالادستی، مضبوط مرکز نے بھارت دشمن قوم پرستی کی راہ سجھائی جسے بھارتی قیادت جِلا بخشتی رہی۔ 

سرد جنگ کے زمانے نے عسکری قیادت کو ایک سنہرا موقع فراہم کیا کہ وہ بھارت سے فوجی عدم توازن کو دور کرنے کے لئے امریکہ کی سرپرستی میں چلنے والے مغربی فوجی اتحادوں کا حصہ بن جائے۔ بھارت اور چین کے درمیان 1962کی جنگ نے پاکستان کی سلامتی پر سوال کھڑے کر دیے۔

وزیراعظم اندرا گاندھی نے (اپنی شمال مشرقی نرم پٹی کے تحفظ کو سامنے رکھتے ہوئے) 1971کی جنگ میں جنرل یحییٰ خان کی احمقانہ فوج کشی اور خون ریزی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کو خلیج بنگال میں ڈبو تو دیا لیکن بنا بھی تو مسلم بنگلہ دیش جو مغربی بنگال سے علیحدہ رہنے پہ مصر ہے۔ اگر بھارت کو تحفے میں اندرا گاندھی کا ایمرجنسی رُول ملا تو پاکستان کو 1973کے آئین کی سوغات اور شملہ معاہدہ۔ 

پھر سنائی بھی دی تو ’’مسکراتے بدھا‘‘ کی اوٹ میں ایٹمی دھماکوں کی گونج اور اس کی بازگشت میں ایٹمی و روایتی اسلحہ کی باہمی تباہی کی دوڑ۔ افغانستان میں سوویت فوجوں کی آمد سے سرد جنگ کا نیا محاذ کھلنے پر جنرل ضیاء الحق کی چاندی ہوگئی اور سی آئی اے کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان دہشتگردی کے ہاتھوں لہو لہان ہوگیا۔ 

نوے کی دہائی میں مختصر سول حکومتوں نے جمہوری استحکام کی خاطر بھارت سے کشیدگی کم کرنے کی سعی ضرور کی لیکن وہ چلنے نہیں دی گئی۔ برصغیر میں مذہبی تفرقے کو پھر سے زندہ کیا بھی تو 1951میں پاکستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور بھارت میں 1992میں بھارت میں بابری مسجد کے انہدام نے ایک طرف وہاں ہندو توا کو فروغ دیا جس سے پاکستان میں جاری مذہبی بنیاد پرستی کو انگیخت ملی۔

پھر بھی وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور امن عمل شروع کیا جسے جنرل مشرف نے عقب سے کارگل میں چڑھائی کر کے ناکام بنادیا۔ پھر اسی جنرل مشرف نے پہلے واجپائی حکومت (2004) اور پھر من موہن سنگھ حکومت (2006-8) سے مربوط بات چیت کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کا عملی حل تلاش تو کیا، لیکن تنازعہ حل نہ ہوا۔ 

امن کوششوں کے تابوت میں آخری کیل نومبر 2008میں ممبئی میں ہونے والی دہشتگردی نے ایسی ٹھونکی کہ بعدازاں تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ الٹا بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی آرٹیکل 370کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت اور خود مختاری بھی 5 اگست 2019میں ختم ہوئے دو برس سے اوپر ہوچلے ہیں اور پاک بھارت نہ امن، نہ جنگ کی حالت میں برقرار ہے۔

تازہ ترین