• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’سُنو! مَیں مر جاؤں تو مجھے گاؤں لے جانا اور اپنی مٹّی ہی میں دفنانا‘‘ پردیس میں اولڈ ایج ہومز کے ایک بستر پر پڑے پڑے مَیں نے اپنے بچّوں کو وصیت کی۔ ساری عُمر خواہشات کے پیچھے بھاگتے دَوڑتے انسان، دنیاوی مال و متاع کے لیے اپنی مٹّی چھوڑ کر پردیس میں بس تو جاتا ہے، مگر عُمر کے آخری حصّے میں اسے اپنی مٹّی کی یاد ستانے لگتی ہے اور یہی آرزو ہوتی ہے کہ تدفین اپنے وطن کی مٹّی ہی میں ہو۔ دیس کی یہ یاد بھی تب آتی ہے ،جب پردیس میں اولاد مادّہ پرست ہوکر منہ موڑ لیتی ، بات بات پہ جھڑکیاں دیتی ہے اور ساری عُمر لاکھوں، کروڑوں کمانے والوں کا گزارہ حکومت کے وظیفے پہ ہونے لگتا ہے۔

تب اپنے کھیت کھلیان، گاؤں دیہات، بچپن کے دوست، رشتے دار سب یاد آتے ہیں۔جوانی میں تو پردیس ، وہاں کے لوگ، رہن سہن بہت متاثر کرتا ہے۔ اپنے وطن میں صرف خامیاں ہی خامیاں ، لوگوں کی جہالت ہی نظر آتی ہے، لیکن پردیسی ہو کرپھر اپنے مُلک، اپنے لوگوں ، رشتے ناتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مَیں بھی ایک ایسا ہی نوجوان تھا، جو خواہشات کے پیچھے بھاگتا بھاگتا یہاں تک آن پہنچا، نہ گھر والوں کی خبر لی، نہ یاردوستوں کی۔ اپنے خوابوں کو پورا کرتا کرتا اس مقام تک آگیا کہ جہاں سے نہ واپسی کا کوئی راستہ تھااورنہ ہی اب پردیس میں دل لگتا تھا۔

مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے، جب اپنے وطن سےاُڑان بھر کے یہاںاس آزاد فضا میں آیا ۔بچھڑتے سمے میری ماں کی آنکھیں ساون بھادوں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ اس کے آنچل کی چُنّی کا پلّو گیلا تھا اور ربّ جانے کتنے دن، مہینوں، سالوں میرے پردیس جانے کا سوگ مناتی رہی ہوگی۔ ابّا بھی بہت خاموش مضمحل اور افسردہ سےتھے کہ جیسے اُن کی کمر ہی ٹوٹ گئی ہو اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ جس عُمر میں جوان بیٹے اپنے باپ کا سہارا بنتے ہیں، مَیں اُس عُمر میں انہیں بے سہارا کرکےآ گیا تھا۔ پورا شریکا اُن پہ ہنس رہا تھا اور کیوں نہ ہنستا کہ ربیع کی واڈھی زوروں پہ تھی اور اس کام میں افرادی قوت کی اشد ضرورت ہوتی ہے، مگر مَیں واڈھی تک کے لیے نہ رُکا کہ مجھے جانا تھا، اُڈاری بھرنی ہی تھی ۔ مَیں تو خواہشات کا اسیر پرندہ تھا اور اسیر پرندے کبھی ٹھہرتے ، کبھی رُکتے نہیں۔ وہ تواڑان بھرکے ہی دَم لیتے ہیں۔

میرا باپ ایک معمولی کسان تھا،جس نے ساری عُمر اس امید پہ سخت محنت کرکے گزار دی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کے حالات بدلیں گے کہ اُس نے بچپن یہ مثل سُن رکھی تھی کہ ’’دودھی پُتری، دن پِھر ہی جاندے نیں‘‘ یعنی جس کے گھر دودھ اور بیٹے ہوں ، کبھی نہ کبھی اس کے حالات بہتر ہو ہی جاتے ہیں۔ اللہ نے میرے باپ کو بیٹےبھی دئیے اور ان کے پاس ایک بھینس بھی تھی۔ اب ایسے میں اگرسب سے بڑا بیٹا ہی چھوڑ جائے ،تو ماں باپ روئیں نہ تو کیا کریں۔

انہوں نے مجھے بہت سمجھایا کہ ’’پُتّر! نہ جا،اپنے مُلک میں کسی چیز کی کمی نہیں، تُو یہاں بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کر سکتاہے، خُوب پیسا کما سکتا ہے‘‘، مگر مجھ نادان کے سرپرتو بس پردیس جانے کا بھوت سوار تھا،اپنے لوگ جاہل، اپنی مٹی گندی لگتی تھی۔ سو، مَیں نہ رُکااور بس اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا چلا گیا۔ اتنابھاگا کہ پھر کبھی مُڑ کر نہیں دیکھا۔

جانے کتنا وقت بیت گیا،مجھے اپنے وطن کی کبھی یاد نہیں آئی۔کبھی پاکستان جانے کا دل نہیں کیا۔35 برس میں مشکل سے تین، چار بار ہی وطن گیا۔ ایک بار ماں کے مرنے پر، پھر بہن کو رخصت کرنےاور ابّاکو تو کندھا بھی نہ دے سکا کہ اُن کے سوئم میں پہنچا تھا۔ اس کے بعد خاندان میں جانے کتنی اموات ، کتنی شادیاں ہوئیں، مگر مَیں نہیں گیااور نہ کسی سے کوئی تعلق رکھا۔ جا کر کرتا بھی کیا کہ وہاں اب کوئی مجھے جانتا ہی نہیں تھا، نہ کوئی یار تھا، نہ شریکا۔ سب اجنبی اور غیر مانوس ہو چُکےتھے۔

یہاں تک کہ مجھے تو میری مٹّی بھی نہیں پہچانتی تھی۔ وہاں کے رسم و رواج مجھے بھول چُکے تھے ،حقّے کی نَےپر گھنٹوں باتیں کرنا اِک فضول ایکٹیویٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔یوں بھی اب تومَیں سگار پیتا اور مختصر بات کرتا تھا۔ اپنا وطن مجھے اجنبی لگنے لگا تھابلکہ سچ تو یہ ہے کہ مَیں خود اس دھرتی کے لیے اجنبی ہو چُکا تھا۔

مگر…جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ، جوانی ڈھلتی گئی، بڑھاپا آتا گیا،مجھے اپنی دھرتی، اپنی مٹّی کی یادستانےلگی۔جب تنہائیوں نے آن گھیرا تو مجھے اُٹھتے بیٹھتے گاؤں کے چوک، چوراہے، محفلیں، دوست یار یاد آنے لگے۔ دل، منہگے برانڈڈ پرفیومز کے لیے نہیں، اپنی دھرتی کی مٹّی کی خوش بُو کے لیے تڑپنے لگا تھا۔ وہاں کے موسم، کھیت کھلیان، فصلیں، پھل اور میوے یاد آتے۔ حقّے کی نے پر جمنے والی محفلیں تڑپاتیں، وہاں کی فضا اور گھنے پیڑوں کا سایہ دل لبھاتا اور اب سرد موسموں کی ہلکی ہلکی نرماہٹ اور گرماہٹ یاد آنے لگی تھی ،لیکن مَیں سوائے پچھتانے کے اور کر بھی کیا سکتا تھا۔

میرےپاس مال و دولت تو بہت تھی، لیکن بات کرنے کے لیے اپنے نہیں۔بچّوں کو کہتا کہ ’’میرے پاس بیٹھو ‘‘تو ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ وطن لوٹنے کو دل تو بہت کرتا، مگر علالت کے باعث طویل سفر نہیں کر سکتا تھا۔ اور یہ ہُڑک، یہ تڑپ صرف میری نہیں، مجھ جیسے، ہزاروں ،لاکھوں پردیسیوں کی ہے، جو اپنے وطن لوٹنا تو چاہتے ہیں، پر اب لَوٹ نہیں سکتے۔ سو، اب مَیں پچھتاووں میں زندگی بسر کر رہا ہوں، بسر بھی کیا کر رہا ہوں، بس گزار رہا ہوں کہ بسترِ علالت پہ ہوں، جانے کب زندگی کی شام ہوجائے۔ اسی لیے مَیں نےوصیت کردی ہے کہ ’’ جب مَیںمر جاؤں، تو مجھے گاؤں لے جانا اور اپنی مٹّی میں دفنانا، جہاں میرے ماں ،پیو دفن ہیں۔‘‘ 

مگر مجھے پتا ہے کہ میری اولاد کے پاس مجھے پاکستان لے جانے، میری وصیّت ، میر ی آخری خواہش پر عمل کرنے کے لیے بھی وقت نہیں ہوگا۔ جیسے کئی سال پہلے میرے پاس اپنے بوڑھے ماں باپ کے لیے وقت نہیں تھا، ان کے آنسو میرا پتھر دل نہ پگھلا سکے، تو میری ’’فرنگی‘‘ اولاد کا دل کیسے پگھلے گا۔یہ وہی بیج ہے، جو مَیں نے کئی سال پہلے بویا تھا، جسے مَیں آج کاٹ رہا ہوں۔ میری اولاد مجھے روتا ، وطن کو یاد کرتا دیکھ کر ہنستی ہے، لیکن مَیں اُسے کیسے سمجھاؤں کہ پچھتاوا کتنا اذیّت ناک ہوتا ہے،وطن کی محبّت کیا ہے، مٹّی کی مہک کس چیز کو کہتے ہیں۔ شاید وہ بھی میری طرح کبھی نہ کبھی سمجھ ہی جائیں گے، جب میری عمر کو پہنچیں گے، شاید…

تازہ ترین