پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ قائدs اعظمؒ’ کے فرمان کے مطابق’’ ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں “ ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے ً114 خطابات اور تقریروں میں و اشگاف الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستور کیسا ہوگا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں ،ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔
حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپناسکیں۔ جب تک قوم بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی ، قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانا دینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ارض پر اسلام کے آفاقی و غیر فانی نظریہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی پہلی مملکت خدا داد ہے ، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے ،اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں ،اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کردینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود کائنات زیادہ دیر برداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں ۔
پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم !قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذ بات کو پروان چڑھانے میں 14اگست کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اپنی آنے والی نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداد کوایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا ، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جس خواب کی تعبیرحاصل کرنے کیلئے دن رات ایک کیا اور پھر برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون پیش کرکے جوزمین کاٹکڑاحاصل کیا تھا کیا یہ وہی پاکستان ہے!کیا یہ وہی پاک سرزمین ہے جس کی سرحد پر پہنچتے ہی لٹے پٹے اور زخموں سے چور مہاجرین وارفتگی کے عالم میں زمین پر گر کر اسے چومتے اور اس کی مٹی کو مٹھیوں میں بھر کر اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے، اپنے معصوم بچوں کے نیزوں پر جھولتے لاشے اور اپنی عزتوں کو بچانے کیلئے دریاؤں اور کنوؤں میں چھلانگیں لگاتی بہنیں اور بیٹیاں اور اپنے نوجوان بیٹوں کے خاک اور خون میں تڑپتے لاشے دیکھنے کے بعدجن میں زندہ رہنے کی خواہش دم توڑ چکی تھی اب انہیں زندگی پیاری لگ رہی تھی اور وہ بے ساختہ پکار اٹھتے کہ ہم نے بہت کچھ کھو کر بھی سب کچھ پالیا ہے ،پاکستان مل گیا ہے تو ہمیں اب اپنے پیاروں کے بچھڑنے ، گھروں کے اجڑنے اور بستیوں اور شہروں کے جلنے کا کوئی غم نہیں۔
دستور پاکستان میںعوام کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ،عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ ،ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی۔
ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتی ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی وڈیرے اور جاگیر دار قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کی سیاست کا مرکز و محور ہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے ۔ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی کو فائق نہیں سمجھا جاتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے ہمیں اس کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود اسی بنیاد سے وابستہ ہے ۔ 14اگست کا تاریخی دن ایسے حالات میں آیاہے کہ آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت بن چکی ہے اور دوسری طرف بھارت نے دوسال سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے کشمیر کو اپنی مستقل ریاست قراردے رکھا ہے ۔ بھارت کا یہ اقدام کشمیر پر بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سراسر نفی ہے ،کشمیری قوم 75سال سے بھارت کے ظلم و جبر کا مقابلہ کررہی ہے اور اپنی آزادی کیلئے قربانیاں دے رہی ہے جبکہ بھارت نے نو لاکھ فوج کے ساتھ پوری وادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں بدل دیا ہے ۔
5اگست 2019سے جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ ہے سواکروڑ لوگوں کو ان کے گھروں میں قید کردیا گیاہے ۔ تمنائے آزادی اور جذبہ حریت کو بندوق و بارود سے نابود کرنا ممکن ہوتا تو تحریک آزادی کشمیر کب کی دم توڑ چکی ہوتی ۔ بھارتی فوج کے بے پناہ انسانیت سوز مظالم کے سامنے کشمیری سرنگوں ہو جاتے لیکن75سال گزر گئے ایسا نہیں ہوا ۔ عشاق آزادی قافلہ در قافلہ سوئے مقتل رواں دواں ہیں ۔ جانوں کا نقصان ہمیشہ تحریکوں کو سیراب کرتا ہے اوران کیلئے پیغام زندگی بنتا رہاہے ۔
بھارت نے کشمیر کی خصوصی صورتحال ختم کر کے اسے اپنا مستقل حصہ (اٹوٹ انگ) قراردیا ۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں اور چین سمیت بہت سے ممالک نے اس اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کیامگر آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ یہ موقع ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کے لیے آگے بڑھے تاکہ خطے کو تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے۔
پاکستان نے اس بار بھی اپنے یوم آزادی 14اگست کو کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منانے اور قومی پرچم کے ساتھ کشمیرکا جھنڈا لہرانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بھارت کے پانچ اگست2019کے اقدام کو دو سال گزرنے پر ملک میں یوم سیاہ اور یوم استحصال کشمیر منایاگیا ۔ بھارت کے یوم آزادی پرجموں و کشمیر اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ،ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم” تحریک تکمیل پاکستان“ کا آغازکردے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا یا جاسکے ۔کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کیلئے آئین کی بالادستی اورقانون حکمرانی ضروری ہے ۔ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عمل داری کے معاملہ میں 102ملکوں میں سے 98ویں نمبر پر ہے ۔
قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن ،غربت ،جہالت ،عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے ۔ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے انہیں اپنے حقوق کا ادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار، وڈیرے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیراور قومیت ،لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات کی بنیاد پر باہم دست و گریبان رکھنا چاہتے ہیں۔