افغانستان ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے۔ جس کے معروضی حالات کا پاکستان پر اثر انداز ہونا لازمی امر ہے۔ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا۔ 71ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بلکہ اس سے بھی پہلے روس اور بھارت میں دوستی کے کئی معاہدے ہوئے اور محبت کی پینگیں بڑھیں۔ ادھر امریکہ کو تشویش تھی کہ بھارت کو مکمل طور پر روس کی گود میں چلے جانے سے روکا جائے جب جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکے طور پر اقتدار سنبھالا تو امریکہ سے پاکستان کے حالات کافی کشیدہ اور پیجیدہ تھے۔ ایسے میں روسی جارحیت پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھی اور اگر روس افغانستان میں اپنے عزائم میں کامیاب اور قدم جما لیتا تو پھر لازمی طورپر اس کی اگلی مہم جوئی کا نشانہ پاکستان ہوتا۔کیونکہ یہاں صوبہ سرحد(KPK)اور بلوچستان میں بھارت کی مدد سے قوم پرستی کے نام پر علیحدگی کی تحریکیں بھی سر اُٹھا چکی تھیں۔
روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں افغانوں کی مدد اور 35 لاکھ سے زائد مہاجرین کو خوش دلی سے پناہ دے کر جنرل ضیاء الحق نے جس ملی، اخلاقی، مذہبی اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور یہ ذمہ داری جس احسن طریقے سے نبھائی اس کی مثال پیش کرنا مشکل ہے اور اس حوالے سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا افغان جنگ میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقائے کار کے کردار، حکمت عملی، سیاسی اور حربی دانش مندی، تدبر اور تزویر کو کبھی بھلایا نہ جائے گا۔ شہید صدر نے بطور فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ دنیا نے انہیں مستقل مزاجی اور مکمل یک سوئی سے ایک بڑی سپر پاور کے مقابلے میں افغان عوام کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا یہ سب کچھ انہوں نے اس وقت کیا جب پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیرمستحکم تھا اور خطے کی معروضی صورتِ حال کی وجہ سے کئی طرح کی مشکلات اور خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ اُس وقت تک پاکستان ایٹمی قوت کی شناخت بھی نہ رکھتا تھا۔ افغان قوم کو روس کے پنجہ استبداد سے نجات دلا کر افغانستان کی آزادی کی شمع روشن کرنے کا کارنامہ ایسا بڑا کارنامہ ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اور ان کے اس جنگ میں فوجی کمانڈروں کو اس کا کریڈٹ نہ دینا نا انصافی ہو گی۔ افغانستان کی روسی جارحیت سے آزادی موجودہ عہد کا ایسا لا زوال واقعہ ہے جس نے احیائے اسلام کی تحریکوں پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق ایک راسخ العقیدہ مسلمان سپہ سالار تھے۔ 1977ء میں اپوزیشن کی اپیل پر عوام نے اس وقت کے حکمراں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تھی، اس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوا جنرل ضیاء الحق کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تو تاریخ کے اوراق اس بات کے گواہ ہیں کہ ملک کے طول و عرض میں ہر سطح پر عوام نے مارشل لا کا والہانہ استقبال کیا اور اس اقدام کو خوش آمدید کہا ۔ لوگوں نے اس قدر مٹھائیاں بانٹیں کہ سوجی اور چینی کے گودام خالی ہو گئے۔
1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میںجارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ افغانستان کی صدیوںکی تاریخ شاہد ہے کہ افغان قوم نے بیرونی حملہ آوروں کو کبھی قبول نہیں کیا، افغان جنگجو قوم ہے ۔ وہ ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف برسر پیکار رہتی آئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر صدیوں کی تاریخ میں کوئی ایسا وقت آیا کہ جب افغان قوم کو بیرونی حملہ آوروں سے نجات نصیب ہوئی تو یہ قوم آپس میں ہی میدان جنگ سجا کر بیٹھ گئی اور مختلف قبائل یا گروہ آپس میں لڑتے رہے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں امریکیوں کو افغان مجاہدین تک رسائی سے روکنا افغان پالیسی کا اہم حصہ تھا۔ افغانستان میں ہزاروںکلومیٹر تک پھیلے محاذ جنگ کی نگرانی آئی ایس آئی کی اہم ذمہ داری تھی۔ پاکستان ہی افغانستان میں مجاہدین تک خوراک اور اسلحہ پہنچاتا تھا۔ مجاہدین کی ضرورت پیٹ کے لیے روٹی اور بندوق کےلیے گولی تھی۔جو کمک کی صورت پاکستان انہیں فراہم کرتا رہا۔ امریکیوں کے ساتھ جو بھی معاملات طے کیے جاتے وہ پاکستان ہی طے کرتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق اپنی جہادی پالیسیوں کے باعث پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے رہے خصوصاً عالم عرب میں وہ ایک مسلمان جرنیل ہونے کے باعث ہیرو کے طورپرپسندکیےجاتےاورعام لوگ انسے والہانہ محبت بھرے جذبات رکھتے تھے ۔
جنرل ضیاء الحق کی افغان جنگ میں مدد اور پشت پناہی کی پالیسی نے امریکہ اور پاکستان کو قریب کر دیا تھا اور وہ کشیدہ صورت حال ماضی کا قصہ بن گئی جو 1977ء میں اُن کے زمام اقتدار سنبھالتے وقت تھی۔ اب بھارت تشویش میں مبتلا تھا اور پاکستان جنرل صاحب کی افغان پالیسی کے باعث عالمی منظرنامے پر چھایا ہوا تھا۔ یہی وقت تھا جب پاکستان کی عسکری قوت میں جدید ترین جنگی آلات کا قابل قدر اضافہ ہوا۔ بھارت کے بے پناہ شور شرابے کے باوجود پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالار جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی اُفق پر جنرل محمد ضیاء الحق کی قیادت کا چرچا تھا اور امریکہ سمیت نہ صرف مغربی ممالک بلکہ اُمت مسلمہ کے تقریباً سبھی عرب حکمراں بھی پاکستان کے دم ساز اور ہم نوا تھے۔ ایسے میں کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق اپنے دھیمے لہجے اور پروقار انداز میں دنیا کے شاطر اور بزعم خود، خود کو عقلِ ُکل سمجھنے والے بڑے بڑے دماغوں سے اپنی مدبرانہ سوچ اور صلاحیت سے اپنے مطلب کا کام نکالتے رہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتےرہے۔ 1974 میں بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد یہ از حد ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹمی صلاحیت حاصل کرے۔ لہٰذا جنرل محمد ضیاء الحق نے نہایت تحمل، بردباری اور حکمت عملی سے پاکستان کےلیےایٹمی صلاحیت حاصل کر کے اپنے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کر دیا جو کہ ہر پاکستانی کا مطمع نظر تھا۔
افغان مجاہدین کے تمام گروپس اور تمام تنظیموں کی قیادت انہیں اپنا ہیرو اور رہنما تسلیم کرتی تھی ۔ افغانستان کے گلی کوچوں، مجاہدین کے مورچوں، چیک پوسٹوں کے در و دیوار ’’ضیاء الحق‘‘ کی تصویروں سے سجے رہتے تھے اور اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ افغانستان کے بارے ان کا موقف اور پالیسی بہت واضح اور دو ٹوک تھی اور اس سلسلے میں وہ نہ روس کی کوئی بات سنتے تھے اور نہ بھارت کو ہی خاطر میں لاتے تھے۔ کابل کی کٹھ پتلی حکومت کی تو ان کی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہ تھی۔
صدر ضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ’’کابل‘‘ کو فتح کرلیتاتوآج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کےلیے قیامِ پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ انہی محب وطن سرفروشوں میں17اگست 1988ء کوسازش کاشکارہونےوالے C-130 طیارے کے وہ سب سوار اور سالار بھی ہیں جنہوں نے اپنے دل رنگ لہو سے ارضِ پاکستان کی آب یاری کی۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
آج سے تقریباً 33 سال قبل جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی رفقاء کار اور ہم خیال ساتھیوں کو جن میں جنرل اختر عبدالرحمن بھی شامل تھے، ایک گہری سازش کے ذریعے پہلے سےطےشدہ فضائی حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا اس سازش کے تیار کرنے والے دماغوں نے اس بات کا خاص طور پر انتظام کیا تھا کہ وہ عسکری قیادت جو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ مل کر افغان جنگ لڑ رہی تھی اور جو افغان پالیسی چلا رہی تھی انہیں قومی منظر نامے سے ہٹا دیا جائے۔ جنرل اختر عبدالرحمان کو بھی اس طیارے میں ایک سازش کے تحت ہی سوار کرایا گیا تھا یہ سب کچھ ملٹری کے قواعد و ضوابط کے خلاف عمل تھا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا ۔
امریکی ترجمان ولسن صدر محمد ضیاء الحق کو اپنے قومی ہیرو اور عظیم شخصیات میں شمار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے روس کے شدید اور بے انتہا دبائو کی مزاحمت کی جو روس نے افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کے لیے اُن پر ڈالا گیا۔ اُنہوں نے روسی ریچھ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس حدتک مقابلہ کیا کہ اُس روسی ریچھ کو آنکھ جھپکنا پڑی۔
سی آئی اے کا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سویت یونین کو شکست دینےکےلیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کو ئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیںتھی۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی ۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ مغرب خصوصاً امریکہ کو اُس دن سے ڈرنا چاہیے جب پاکستانی فوج میں اتفاقاً جنرل ضیاء الحق سے ملتا جلتا کوئی اور جنرل نہ آ جائے۔ تب اُن کی ترش روئی اور رعونت کا کیا بنے گا جبکہ پاکستان کو مکمل طورپر تباہ کرنا کسی کے بس میں نہیں البتہ آپ اس کو اندر سے کھوکھلا کر سکتے ہیں۔ وہ مزید لکھتا ہے آپ لوگوں کو اپنی قسمت کے ستاروں کی خوش بختی کا شکر گزار ر ہونا چاہیے کہ پاکستان میں ضیاء الحق نامی کوئی اور جرنیل آج موجود نہیں ہے۔
بروس ریڈل (Bruce Reidell) لکھتا ہے کہ سوویت یونین نے ایک اور تباہ کن فیصلہ کیا اُس نے جنگ جیتنے کے لیے ایک لاکھ فوجیوں کو اس کے برعکس رکھا جب وہ1968میں چیکوسلواکیہ میں گیا تھا۔ اُ س نے ڈیڑھ لاکھ مردوں کا استعمال کیا۔ اس میں بہت سی چیزوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو بند نہیں کر سکتے تھے۔ اس کے ساتھ پاکستان مجاہدین کا گڑھ بن چکا تھا جبکہ مجاہدین کا مرکزپاکستان میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرتھا۔ ضیاء الحق نے ان مجاہدین کو قیادت فراہم کی ۔ اور کامیاب حکمتِ عملی سے جنگ کو آگے بڑھایا۔ اگر یہ کسی کی بھی جنگ تھی تو یہ جنگ تھی ضیاء الحق کی۔ ضیاء الحق وہ شخص ہے جس نے1980 کی دہائی میں اس جنگ کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا وہ فیصلہ کن فیصلہ تھا اُس نے مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے مجاہدین کی سیاسی قیادت کو منظم کیا۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کے کس گروپ یا (War Lord) کو کیا سامان فراہم کرنا ہے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ افغانستان میں مجاہدین کی قیادت آئی ایس آئی(ISI) کرے گی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ آئی ایس آئی (ISI) کی کون سی ٹیم افغانستان جائے گی۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ مجاہدین کیسے جنگ کو دریائے آمو کو پار کر کے سویت وسطی ایشیا میں لے جائیں گے۔ جنرل ضیاء الحق نے ہی فیصلہ کیا کہ کس وقت جنگ میںا سٹنگر مزائل کا استعمال کریں گے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ جنگ چارلی ولسن کی جنگ تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی جنگ تھی۔ سعودی عرب نے بے تحاشا فنڈ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق20 ملین ڈالر افغان مجاہدین کے لیے پیش کیا۔ اس فنڈ کو اکٹھا کرنے میں اُس وقت کے گورنر ریاض اور موجودہ بادشاہ سلمان کے علاوہ ایک اور سعودی باشندہ بھی تھا جس کا نام تھا اسامہ بن لادن۔
مجاہدین اور افغان عوام جنرل ضیاء الحق کے اس قدر عقیدت مند اور احسان مند تھے کہ اُن میں اس سطح کی خوش اعتمادی تھی کہ وہ برملا کہتے تھے کہ ضیاء الحق اکثر و بیشتر ہمارے ساتھ میدانِ جنگ کے اگلے مورچوں میں بنفسِ نفیس موجود ہوتا تھا۔ جب جنیوا سمجھوتے کے بعد کسی اخبار نویس نے جنرل ضیاء الحق سے استفسار کیاکہ اب جبکہ روسی فوجیوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی چند ہی دنوں کی بات ہے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ جس کا جواب جنرل صاحب نے یہ دیا کہ میری اس وقت سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل شکرانہ ادا کروں لیکن شہادت نے اُن کو کہ مہلت نہ دی۔ 1990 میں جب مجاہدین کی اسلامی حکومت قائم ہو چکی تو میں نے اُن کی جانب سے پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل اداکیے۔ اُس وقت مرد و زن اور بچوں کا ایک کثیر مجمع اکٹھا ہو گیا۔ وہ سب رو رہے تھے اورشہید صدر کے لیے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔
ضیاء الحق کے شخصی کردار کے محاصل میں یہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ ﷲ نے اُنہیں وسیع القلبی کی نعمت سے نوازا تھا۔ اس کے ساتھ برداشت ، استقامت ، اور صبر بھی اُن کی طبیت میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اپنے ۱۱ سالہ طویل اقتدار کے دوران اُنہوں نے جناب بھٹو کے متعلق صرف ایک مرتبہ اتنا کہا تھا کہ " مسٹر بھٹو نے اس ملک کو تباہ کر دیا ہے "میں ضیاء الحق کے ناقدین اور مخالفین سے درخواست کرتا ہوں کہ اس ایک مختصر سے فقرے کے علاوہ کوئی اور واقع یا موقع اُن کے علم میں ہو تو مجھے ضرور مطلع کریں۔ جنرل ضیاء الحق اپنے تمام دکھ درد اپنے سینے میں سمیٹنے اور سنبھالنے کا ہنر جانتے تھے۔ اُنہوں نے کبھی کسی سے کسی کے متعلق کوئی شکوہ یا شکایت نہیں کی۔
ـٌّصلہ ء شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
صدر پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق شہید)
E.Mail:ulhaq.ijaz@gmail.com