امام عالی مقامؓ نے فرمایا،سچائی عزت ہے، جھوٹ عجز(کمزوری)ہے، راز داری امانت ہے، حق جوار قرابت ہے، امداد دوستی ہے، عمل تجربہ ہے ، حسنِ خلق عبادت ہے، خاموشی زینت ہے، بخل فقر(محتاجی )ہے، سخاوت دولت مندی ہے، نرمی عقل مندی ہے۔
میدان ِ کربلا میں امامِ عالی مقامؓ کا تاریخی خطبہ
(اے لوگو! رسول اللہ ﷺ )نے فرمایا کہ جس نے ایسے بادشاہ کو دیکھا جو ظالم ہے، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو وہ حلال کرتا ہے،اللہ کے عہد کو توڑتا ہے، سنت رسول ﷺکی مخالفت کرتا ہے، اللہ کے بندوں کے درمیان گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرتا ہے (پھریہ سب کچھ)دیکھنے والے کو اس پر عملاً یا قولاً غیرت نہ آئی تواللہ کو یہ حق ہے کہ اس(ظالم)بادشاہ کی جگہ اس دیکھنے والے کو دوزخ میں داخل کردے ، میں تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت قبول کرلی ہے اور اطاعتِ رحمن چھوڑدی، اللہ کی زمین پر فتنہ وفساد پھیلا رکھا ہے ، حدودِ خداوندی کو معطل کردیا ہے، یہ غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں، اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال اور حلال اشیاء کو (ازخود)حرام کردیا ہے، اس لیے مجھے ان باتوں پر غیرت آنے کا زیادہ حق ہے، میرے پاس بلاوے کے تمہارے خطوط آئے، بیعت کا پیام لے کر تمہارے قاصد آئے،انہوں نے کہا کہ تم مجھے(ہرگز)دشمنوں کے سپرد نہ کروگے اور بے یارومددگار نہ چھوڑو گے، اگر تم اپنی بیعت کا حق ادا کروگے تو ہدایت پائو گے، میں حسینؓ ابن علیؓ وابن فاطمہؓ بنت رسول اللہ ﷺ ہوں، میری جان تمہاری جانوں کے ساتھ اور میرے اہل بیتؓ تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہیں، تمہارے لیے میری ذات(بہترین) نمونہ ہے، اب اگر تم اپنے فرائض بجا نہ لائوگے اور عہدوپیمان توڑ کر اپنی گردنوں سے میری بیعت کا حلقہ اتار لوگے تو بخدا! تم سے یہ بعید نہیں، تم میرے والد، بھائی اور چچا زاد کے ساتھ ایسا کرچکے ہو،جو تمہارے فریب میں آئے،وہ فریب خوردہ ہے، تم نے عہد توڑ کر اپنا حصہ ضائع کردیا(تو)جو عہد شکنی کرے، اس کا وبال اس کے سر ہے۔(تاریخ طبری)
تواضع ہو تو ایسی…!
ایک مرتبہ سیدنا امام حسین ؓ کسی مقام کی طرف جارہے تھے، راستے میں کچھ فقراء کھانا کھارہے تھے، انہوں نے آپ کو مدعو کیا، ان کی درخواست پر آپ فوراً سواری سے اتر آئے اور ان فقراء کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول کیا اور فرمایا، تکبر کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا، میں نے (تو) تمہاری دعوت قبول کی، اب تم بھی میری دعوت قبول کرو! پھر انہیں گھر لے جاکر کھانا کھلایا۔(ابن عساکر)
ارضِ کربلا اور دعائے حسینی…!
’’اے اللہ تو ہر مصیبت میں میرا بھروسا اور ہر تکلیف میں میرا آسرا ہے، مجھ پر جو وقت آئے، ان میں تو ہی میرا معاون و مددگار تھا، بہت سے غم واندوہ ایسے ہیں، جن میں دل کمزور پڑجاتا ہے، کامیابی کی تدبیریں کم ہوجاتی ہیں، رہائی کی صورتیں گھٹ جاتی ہیں، دوست ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، اور دشمن شماتت کرتے ہیں، لیکن میں نے اس قسم کے نازک اوقات میں سب کو چھوڑ کر تیری طرف رجوع کیا (ہے) تجھ ہی سے اس کی شکایت کی، تو نے ان مصیبتوں کے بادل چھانٹ دیے اور ان کے مقابلے میں میرا سہارا بنا، تو ہی ہر نعمت کا ولی ہر بھلائی کا مالک اور ہر آرزو اور خواہش کا منتہٰی ہے۔
شفاعت ِمصطفیٰ ؐپانے والے چار خوش نصیب
سیدنا علی مرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا ’’قیامت کے دن میں چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا، ایک وہ جو میری اولاد (سادات) کی عزت وتکریم کرتا ہے، دوسرا وہ جو، ان کی ضرورت میں ان کے کام آتا ہے، تیسرا وہ ،جو ان کی مشکل میں ان کے لیے کوشاں رہتا ہے اور چوتھا وہ جو زبان اور دل سے ان کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ (دیلمی)
چھ بدنصیب لوگ…!
امّ المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا : چھ طرح کے لوگوں پر میں لعنت کرتا ہوں اور ان پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے ،ایک وہ شخص جو کتاب اللہ میں زیادتی کرے، دوسرا وہ شخص جو تقدیر کو جھٹلائے، تیسرا وہ شخص جو طاقت کے ذریعے مسلّط ہوکر اللہ کے ذلیل کئے ہوئے کو عزت دے اور اللہ کے عزت دیئے ہوئے کو ذلیل کرے، چوتھا وہ شخص جو اللہ کے حرام کئے ہوئے امور کو حلال جانے یا حلال امور کو حرام سمجھے۔پانچواں وہ (بدنصیب)جو میرے اہلِ بیتؓ کے بارے میں اللہ کی حرام کردہ چیزوں (قتلِ ناحق )کو حلال سمجھے اور چھٹا وہ شخص جو میری سنت کو چھوڑنے والا ہے ۔ (ترمذی، بیہقی وحاکم)