• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہدائے کربلا ؓ کی بے مثال قربانی اور جاں نثاری کا عظیم مظہر

عبدالاحد حقانی

محرم الحرام کی دس تاریخ کو یوم عاشور یا عاشورہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی تاریخ کی پہلی صدی ہجری میں یکم محرم 24ہجری میں خلیفۂ دوم سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت اور دس محرم 61ہجری میں نواسۂ رسولؐ، سیدنا حسینؓ ابن علیؓ کی شہادت سے قبل اس دن کو یوم عاشور قرار دینے کی وجہ اس میں ممتاز انبیائے کرام علیہم السلام سے متعلق اہم واقعات کا ظہور بھی ہے۔ 

اس دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کا قبول ہونا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا گلزار ہونا اوراللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خلیل اللہ کا خطاب ملنا ایک طویل عرصے بعد حضرت یوسف علیہ السلام کی ملاقات اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے ہونا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہونا اور انہیں یہودیوں کے شر سے نجات دلا کر آسمان پر اُٹھانے کے علاوہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلانا، حضرت سلمان علیہ السلام کو ان کی بادشاہت کا واپس ملنا، حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفاء ملنا، حضرت یونس علیہ السلام کا چالیس روز مچھلی کے پیٹ کے اندر رہ کر باہر آنا شامل ہیں۔اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا سیلاب سے محفوظ ہو کر کوہِ جودی پر صحیح و سلامت پہنچنا ثابت ہے۔بعض علمائے کرام نے مذکورہ واقعات کے علاوہ کئی اور واقعات کا بیان کیا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے، تفسیر معارف القرآن)

یہ یوم عاشور محرم میں آتا ہے اور ماہ محرم ان مکرم و موقر مہینوں میں سے ہے جو قرآن کریم کے مطابق خصوصی احترام کے حامل ہیں۔ اس مہینے کو اسلام کی آمدسے پہلے بھی نہایت تعظیم سے منایا جاتا تھا۔ اسلام نے اس کی عظمت میں اضافہ کیا۔ پیغمبر اسلامﷺ اور آپ ﷺکے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نو، دس اور گیارہ محرم کو باہم پیوست کسی دو ایام کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔ ہمارے ہاں اس دن کی اہمیت عام دنوں کے مقابلے میں دو چند ہے۔ محرم الحرام کے مہینے کی عظمت کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک رمضان کے بعد سب سے بہتر روزہ محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد بہترین نماز رات کی نماز ہے۔ (صحیح مسلم)

امت محمدیہ کے لئے اس ماہ کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ اسی مہینے میں حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے واقعات رونما ہوئے۔ نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ کی شہادت تاریخ اسلام کا وہ اہم ترین واقعہ ہے جسے مسلمانانِ عالم ہر سال نہایت خلوص سے مناتے ہیں۔

تاریخ اسلام شاہد ہے کہ حضرت امام حسین ؓ نے یہ بات جانتے ہوئے کہ ان کے بہتّر ساتھیوں کی مختصر سی جماعت ، اس فوج کے خلاف جو تعداد میں ان سے بہت زیادہ اور ساز و سامان کے اعتبار سے ہر طرح سے لیس اور چاق و چوبند تھی، لیکن محدود تعداد ہونے کے باوجود فدایانِ اسلام نے اپنے عزم و استقلال سے معرکہ حق وباطل میں حصہ لے کر ثابت کر دیا کہ فتح ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے۔

اس لحاظ سے یہ واقعہ صرف مسلمانوں ہی کے لئے نہیں، بلکہ پورے عالم انسانیت کے لئے سبق آموز ہے۔ یہ وہ دن ہے جو ہر سال مسلمانوں کو اس بات کی یاد دلاتا ہے کہ جب اسلام کی قدریں اور اس کے سنہری اصول پامال ہونے لگیں تو ان پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں کے تحفظ کے لئے اس طرح سینہ سپر ہو جائیں، جس طرح آنحضرت ﷺ کے نواسے حضرت امام حسین ؓ سینہ سپر ہو گئے تھے ۔یوم عاشور ہمیں اعلیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔

فتنہ و فساد کے خلاف ڈٹ کر اعلیٰ انسانی اقدار کا فروغ ہی وہ مشن ہے جس کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے، یہ وہ طرز عمل ہے جسے امام حسین ؓ کے حوالے سے تاریخ نے اسوۂ شبیری کے نام سے موسوم کیا ہے۔ پوری قوم کو قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر صبر و برداشت اور ایک دوسرے سے ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنا چاہیے۔ ارض پاک میں سرگرم عمل خارجی قوتوں اور اندرونی سازشوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لینا چائیے ۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے عزیزوں نے پوری امت مسلمہ اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک عظیم سبق چھوڑا ہے ۔

ہمیں اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں کی روشنی میں اپنے اندر وحدتِ فکر اور اخوت و مساوات کی روایات پیدا کرکے اس مقدس دن کو مکمل یک سوئی اور امن و امان سے منانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عظیم قربانیاں دیں اور جس پر گامزن رہتے ہوئے امام عالی مقام ؓ اور ان کے جاں نثار ساتھیوں نے میدان کربلا میں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

یہ حقیقت ہے کہ کربلا کا واقعہ نہایت اہم ہے جس نے حیات انسانی کے ہر ہر پہلو کو متاثر کیا ۔جہالت و گمراہی کے سیاہ پردوں کو چاک کرتے ہوئے علم و عمل اور روشنی میں اضافہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ یوم عاشور ہمیں اعلیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔ اسوۂ شبیری ہمیں بتاتا ہے کہ حق کی سر بلندی کے لئے کسی بھی قسم کے ذاتی مفادات کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے۔

پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں امام عالی مقامؓ کے اسوۂ شبیری پر چلنے کی طرف توجہ دیتے ہوئے اور اپنے ملک سے ہر نوع کی جہالت کے خاتمے کے لئے مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ فروعی اختلافات کو بھلا کر، اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔ امن، سلامتی اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا، یقیناً اس طرح پاکستان میں خوش حالی آئے گی، ملک کا نام روشن ہو گا اور ہم ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں گے۔

اتفاق واتحاد اسلامی معاشرت کی عزت وشان اور تکریم و وقار ہیں اور یہ مسلمانوں کے لئے اتنی بڑی نعمت ہے کہ ساری دنیا کے خزانے خرچ کرنے سے بھی حاصل نہیں ہو سکتی۔ امام حسین ؓ نے دائمی صداقت کا نشان بن کر میدان عمل میں آنے کا فیصلہ کر کے امت محمدیہ کو یہ باور کرایا کہ ہم اپنے آپ میں اسوۂ حسنہ کی بنیادی اقدار، اتحاد، نظم و ضبط ، قربانی، ایثار ،مساوات اور عدل و انصاف پیدا کریں۔

آج نواسۂ رسولؐ اور دیگر شہدائے کربلا ؓ کے حضور خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ بھی یہی ہے کہ ان کی اپنائی ہوئی اعلیٰ اقدار پر خوش دلی سے عمل کیا جائے اور ہم اپنے گناہوں سے توبہ کریں، تا کہ ہمارے اندرونی مسائل بھی حل ہو جائیں اور ہم عنداللہ بھی سرخرو ہوں۔ آئیے آج عہد کریں کہ ہم سرور دو عالم حضرت محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور حضرت امام حسینؓ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام کی سربلندی اور وطن عزیز کی سلامتی کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

تازہ ترین