کراچی کے علاقے سی ویو کے قریب سڑک پر سائیکل چلاتی خاتون اسما جان کی آنکھوں میں ایک وہ سنہرا خواب ہے جو 80 برس سے تعبیر کا منتظر ہے۔ اسما کے نانا تقسیم ہند سے قبل پنجاب کے چیمپئن سائیکلسٹ تھے، اولمپکس میں بھی برٹش انڈیا کی نمائندگی کرنے والے تھے لیکن دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے ان کا خواب پورا نہیں ہوسکا، وہ اولمپئن نہیں بن سکے۔
برسوں بعد اب اسما کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنے نانا ، مہتا عبدالخالق، کے خواب کو پورا کریں اور ایک بڑے ایونٹ میں ملک کی نمائندگی کریں۔
اسما جان کو آئندہ ماہ بلجیئم میں ہونیوالی عالمی روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ کیلئے پاکستان کی چار رکنی ٹیم میں منتخب کیا گیا ہے، اس ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں میں کنزہ ملک، خلیل امجد اور علی الیاس شامل ہیں ، کنزہ ملک ان دنوں لاہور میں ٹریننگ کررہی ہیں جبکہ دیگر تین ایتھلیٹس میگا ایونٹ کیلئے خود کو کراچی میں تیار کررہے ہیں۔
ان تمام ایتھلیٹس کی نظریں تو عالمی چیمپئن شپ پر مرکوز ہیں لیکن اسما جان کیلئے اس ایونٹ میں شرکت برسوں پرانے خوابوں کی تعبیر ہے۔
اسما نے جیو نیوز کو انٹرویو میں کہا کہ ان کے نانا پنجاب چیمپئن تھے، وہ اولمپکس کیلئے منتخب ہوگئے تھے لیکن عالمی جنگ کی وجہ سے اولمپکس نہ ہوسکے اور وہ اولمپئن نہ بن سکے۔
وہ کہتی ہے کہ ان کے نانا کا خواب اب وہ پورا کریں گی اور شاید وہ اس مقام تک ایک خواب کو مکمل کرنے کیلئے ہی پہنچی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ چیمپئن شپ کیلئے وہ بھرپور انداز میں تیاری کررہی ہیں اور بیلجیئم جاکر انہیں بتانا ہے کہ پاکستانی خواتین بھی کسی سے کم نہیں، وہاں ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں ، اپنے آپ سے ہی ہوگا کیوں کہ وہ جب بھی سڑک پر سائیکل لے کر آتی ہیں وہ کوشش کرتی ہیں کہ خود کو بہتر کریں اس لئے ورلڈ چیمپئن شپ میں اگر انہوں نے خود کو شکست دی تو یہ بہت بڑی بات ہوگی۔
اسما جان عالمی روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں شریک واحد خاتون نہیں ہوں گی، ان کے ساتھ پاکستان کی ٹاپ روڈ سائیکلسٹ کنزہ ملک بھی اسکواڈ میں شامل ہیں ۔
کنزہ ملک کہتی ہیں کہ انہوں نے ایک برطانوی کوچ کی بھی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں جو ڈیٹا کا تجزیہ کرکے انہیں ٹریننگ کی ہدایات دیتے ہیں جس کے مطابق وہ اپنا ٹریننگ کا پلان ترتیب دیتی ہیں۔
قومی ویمن چیمپئن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین سائیکلنگ ابھی پرانا کھیل نہیں،لیکن بہت جلد پاکستانی خواتین نے اس کھیل میں اپنے آپ کو منوالیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ورلڈ چیمپئن شپ میں ملک کی نمائندگی کرنا اعزاز کی بات ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے ساتھ مستقبل میں بھی خواتین کی نمائندگی کی راہیں ہموار کی جائیں کیوں کہ یہاں خواتین میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے۔
چیمپئن شپ کیلئے منتخب ایک اور کھلاڑی علی الیاس پاکستان کے قومی چیمپئن ہیں، علی کہتے ہیں ہر ایتھلیٹ کیلئے دنیا کے ٹاپ ایونٹ میں جانا بہت بڑی بات ہوتی ہے لیکن یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی ایتھلیٹ اپنے پہلے ہی ایونٹ میں جاکر سارے میڈلز نہیں لے آتا، یہ ایونٹ ایتھلیٹس کو سیکھنے کا موقع دیتے ہیں۔
علی الیاس پرامید ہیں کہ وہ عالمی چیمپئن شپ کے دوران اپنا بہترین کھیل پیش کریں گے، ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ اپنی ذات یا کلب کیلئے ریس نہیں کریں گے، یہ ملک کیلئے ریس ہوگی اور جب ملک کیلئے ریس ہوگی تو اس میں وہ اپنا سب کچھ لگادیں گے۔
تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سائیکلنگ کے کھیل کو فروغ دینے کیلئے حکومتی امداد ضروری ہے اور ملک کے کھلاڑیوں کو یہ امید ہے کہ جب وزیر اعظم ایک کھلاڑی ہے تو وہ کھلاڑیوں کی بہبود کیلئے کام کریں گے۔
ٹیم کے چوتھے رکن خلیل امجد کا کہنا ہے کہ کسی بھی ایونٹ کی تیاری کیلئے سائیکلسٹ کو بہت محنت کرنا ہوتی ہے، سیکڑو ں کلو میٹر کی سائیکلنگ ، اسٹرکچرڈ ٹریننگ اور بہت کچھ درکار ہوتا ہے تب جاکر ایک ایتھلیٹ ایونٹ کیلئے تیار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی سائیکلسٹس نے پچھلے چند سالوں کے دوران بہت محنت کی ہے جس کی بدولت آج ایک بار پھر پاکستانی کھلاڑی دنیا کے بڑے ایونٹس میں جانا شروع ہورہے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے۔