اسلام آباد (رپورٹ: رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ کے لارجر بنچ میں’صحافیوں کے حقوق کے تحفظ اورانہیں مختلف حکومتی اداروں کی جانب سے حراساں کرنے‘ سے متعلق درخواست پر دو رکنی بنچ کی جانب سے جاری کئے گئے حکمنامہ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
قائمقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاہے کہ ہمارا سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے حکم میں مداخلت کا ارادہ نہیں تاہم بنچ کے حکم سے ایک مشکل سامنے آئی جسکا تدارک ضروری ہے۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ عدالتی حکم پر اپنی رائے دینے سے پہلے کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں، میڈیا رپورٹوں کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بنچ کی مانیٹرنگ نہیں کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک بنچ دوسرے بنچ کی کارروائی کاجائزہ بھی نہیں لے سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ 1997 میں ایک بینچ کو دوسرے بینچ کیخلاف احکامات دیتے دیکھا گیاہے،لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ عمل دوبارہ نہیں دوہرایا جائیگا۔
اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان نے موقف اختیار کیا ہے کہ اگر درخواست گزاروں کو عدالتوں میں ا پنی پسند کے بنچوں میں مقدمات لگوانے کی اجازت دیدی گئی تو اس سے نہ صرف افراتفری پھیل جائیگی بلکہ انصاف کی فراہمی کا ڈھانچہ بھی بری طرح کمزور ہوجائیگا۔
اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعرات ) تک ملتوی کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدرلطیف آفریدی، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین خوشدل خان اور پریس ایسوسی ایشن کے صدر امجد نذیر بھٹی کو اپنا اپنا موقف پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل بیرسٹر خالد جاوید خان پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ عدالتی حکم پر اپنی رائے دینے سے پہلے کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں۔
عام طور پر ایک ہی مقدمہ مختلف بینچز کے سامنے سماعت کیلئے مقرر ہوتا رہتا ہے،ضرورت کے پیش نظر ایک بینچ دوسرے بینچ کے احکامات میں ترمیم، تبدیلی بھی کرتا رہتا ہے لیکن سپریم کورٹ کا ایک بینچ دوسرے بینچ کے احکامات پر اپنا حکم نہیں دے سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ میرے خیال سے یہ مانیٹرنگ بینچ نہیں ہے۔