• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اورنگی ٹاؤن میں پولیس افسر کا قتل، حملہ آور کی نفرت واضح نظر آرہی ہے

کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) اورنگی ٹاؤن میں گزشتہ شب جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کے واقعہ کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔تفصیلات کے مطابق ہفتہ کی شب اورنگی ٹاؤن پاکستان بازار تھانے کی حدود گلشن بہار سیکٹر 16 میں ہوٹل پر بیٹھے پولیس افسر پر نامعلوم دہشت گرد نے اندھا دھند فائرنگ کر کے شہید کردیا تھا، مقتول افسر منگو پیر انویسٹی گیشن میں تعینات تھا جس کا آبائی تعلق مانسہرہ تھا،سی ٹی ڈی نے واقعہ کا مقدمہ الزام نمبر 75/21 قتل ،اقدام قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کر لیا ہے۔مقدمہ کے متن کے مطابق شہید اہلکار اپنے انفارمر سے ملنے کے لئیے ہوٹل پر بیٹھے تھے کہ اس دوران ایک شخص جسکے چہرے پر ہلکی داڑھی تھی اور بڑے بال تھے اور وہ شلوار قمیض پہنا تھا دونوں ہاتھوں میں پکڑے پستول سے فائرنگ کر دی جسکے نتیجے میں گولیاں لگنے سے اے ایس آئی اکرم خان شہید ہو گئے جبکہ اے ایس آئی اور مقدمہ کے مدعی سید ظفر حسین شاہ نے بمشکل بھاگ کر جان بچائی۔مدعی کے مطابق واقعہ کے بعد ملزم اپنے ساتھی کیساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گیا۔دوسری جانب واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی ہےجس میں دونوں ہاتھوں میں پستول تھامے سفاک قاتل کو گولیاں چلاتے واضح دیکھا جاسکتا ہے، ملزم نے شہید پولیس اہلکار کےساتھ ہوٹل میں بیٹھے دوسرے شخص پر بھی فائرنگ کی ،پولیس نے جائے واقعہ سے نائن ایم ایم پستول کے 8 خول سمیت دیگر شواہد اکھٹے کر کے واقعہ کی شروع کردی ہے۔سی ٹی ڈی کے سینئر افسر راجہ عمر خطاب کے مطابق شہید اہلکار پاکستان بازار تھانے میں بھی تعینات رہا ہے ،ہفتہ کی شب انھیں کسی ریڈ پر جانا تھا ،ریڈ پر جانے سے پہلے وہ کھانے کے لئیے ہوٹل آئے کہ اس دوران ملزم نے انھیں نشانہ بنایا،انکا کہنا تھا کہ اب تک کی تفتیش کے مطابق واقعہ دہشت گردی کا ہی معلوم ہوتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملزمان کہیں اور سے اہلکاروں کا پیچھا کرتے ہوئے آ رہے تھے۔تفتیشی حکام کے مطابق ملزم کا انداز بہت جارحانہ تھا اور اسکے دونوں ہاتھوں میں پستول سے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم کا ٹارگٹ شہید اہلکار ہی تھا،ملزمان کو معلوم تھا کہ شہید اہلکار اس وقت ہوٹل میں بیٹھا ہے جس سے اس بات کا بھی امکان ہے کہ ملزمان کو مذکورہ مقام سے اسکے ہوٹل میں بیٹھنے کی اطلاع دی گئی ہو،شہید اہلکار کراچی آپریشن میں بھی فعال رہا تھا۔تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ریسٹورنٹ میں پولیس افسر کو فائرنگ کا نشانہ بنانے کا واقعہ ذاتی عناد بھی ہو سکتا ہے، تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ طریقہ واردات اور جنونیت سے حملہ آور کی پولیس افسر سے نفرت واضح ہے، حملہ آور کا انداز شدت پسند اور ملک دشمن دہشت گردوں سے میل نہیں کھاتا،انوسٹی گیشن افسران پر حملوں کی وجوہات ان کے زیر تفتیش مقدمات سے جڑی ہوتی ہیں، تفتیشی ذرائع کے مطابق شعبہ تفتیش میں رہتے مقتول پولیس افسر نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کوئی کیس نہیں چلایا اور نہ ہی پولیس افسر نے نہ ہی دہشت گردوں کے خلاف کوئی کیس انوسٹی گیٹ کیا، تفتیشی ذرائع گزشتہ چھ ماہ کے دوران مقتول پولیس افسر کو 40 کے قریب مقدمات کی تفتیش سونپی گئی،مقتول پولیس افسر کو تفتیش کے لئے دیئے جانے والے زیادہ تر مقدمات لینڈ گریبنگ کے تھے،مقتول پولیس افسر نے 6 ماہ کے دوران قبضہ مافیا کے متعدد کارندوں کو چالان کیا۔پولیس کے مطابق واقعہ کی مختلف پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے۔شہید اہلکار کی میت ورثاء تدفین کے لئیے مانسہرہ لے گئے جہاں نماز جنازہ کے بعد اسکی تدفین کر دی گئی۔

تازہ ترین