دل و دماغ:
ڈاکٹر صاحب سر راس مسعود کے بارے میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ان کا دماغ انگریز کا اور دل سچے مسلمان کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مختلف موقعوں پر اس جملے کو دہرایا، ایک بار سر راس مسعود نے اس کے جواب میں فرمایا:
’’اقبال: غنیمت ہے کہ میرا دماغ مسلمان کا اور دل انگریز کا نہیں ہے۔‘‘
شعر کا مفہوم:
ڈاکٹر صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ جب منظر عام پر آئی، تو انہوں نے سر راس مسعود کو ایک جِلد پیش کی اور کتاب پر اپنے دستخط ثبت فرما دیے، بیگم مسعود اس وقت موجود تھیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں اور کتاب آپ ان کو عنایت فرما رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب اس فقرے سے بہت محظوظ ہوئے اور دونوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میں اپنا شعر سناتا ہوں، تم میں سے جو کوئی اس کی زیادہ صحیح اور بہتر تشریح کرے گا وہی اس کتاب کا مستحق قرار پائے گا، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شعر پڑھا ؎
یہ مصرع لکھ دیا، کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا
سر راس مسعود اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں نے اپنے اپنے الفاظ میں اس شعر کا مفہوم بیان کیا، لیکن وقت کی بات کہ بیگم راس مسعود کی شرح و ترجمانی زیادہ بہتر اور شاعر کے مافی الضمیر سے قریب تر نکلی، چناں چہ ڈاکٹر صاحب نے ’’بالِ جبریل‘‘ کے سرورق پر راس مسعود کا لکھا ہوا نام کاٹ کر ’’بیگم راس مسعود‘‘ لکھ دیا اور کتاب ان کو دے دی۔
سر راس مسعود کی اقبال شناسی:
افغانستان کی سیاحت میں علامہ سید سلیمان ندوی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کے تیسرے رفیقِ سفر اور مونسِ راہ راس مسعود ہی تھے، ڈاکٹر صاحب کی شاعری سے سر راس مسعود کو کس قدر لگائو، شغف بلکہ عشق تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب اور سر راس مسعود ایک محفل میں جمع تھے، راس مسعود کی طبیعت کو جو چہل سوجھی تو وہ ڈاکٹر صاحب سے بولے کہ آج ہم دونوں کے درمیان بیت بازی کا مقابلہ رہے گا، مگر اس شرط کے ساتھ کہ آج ہم اشعار شاعر مشرق ہی کے سنائیں گے۔
کسی دوسرے شاعر کے اشعار قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے عزیز دوست کی فرمائش اور شرط کو مان لیا، رات کے آٹھ بجے کے قریب بیت بازی کا مقابلہ شروع ہوا اور دس بجے تک یہ سلسلہ چلتا رہا، شروع شروع میں تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اشعار سنائے، مثلاً سر راس مسعود کا کہا ہوا شعر ’’ل‘‘ پر ٹوٹا اور ڈاکٹر صاحب نے فوراً اپنا ایسا شعر سنا دیا جس کی ابتدا ’’ل‘‘ سے ہوتی تھی، مگر رفتہ رفتہ ڈاکٹر صاحب کے شعر سنانے کی رفتار دھیمی پڑتی چلی گئی، یہاں تک کہ آخر میں ڈاکٹر صاحب کو اپنے شعر یاد کرنے میں بڑی تلاش اور غور و فکر سے کام لینا پڑا، مگر سر راس مسعود کے حافظہ اور یادداشت کا یہ عالم تھا کہ وہ پوری روانی کے ساتھ علامہ اقبال کے اشعار سنائے جاتے تھے اور کسی طرح ہار ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔
آخر کار ڈاکٹر صاحب نے فیصلہ اپنے دوست سر راس مسعود کے حق ہی میں دیا اور اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں اپنے اشعار اتنے یاد نہیں ہیں جتنے راس مسعود کو یاد ہیں اور وہ (اقبال) ان (راس مسعود) کی حاضر جوابی، برجستہ گوئی اور اقبال شناسی کے آگے سپر انداختہ ہیں۔
بیا کہ ماسپر اندا خیتم اگر جنگ است