• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ادب پر خارجی حالات کا بھی کوئی اثر ہوتا ہے؟ اگر آدمی کو دانش وری بگھارنے کا شوق ہو تو اس طرح کے سوال کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے کہ جواب میں بہت سے اگر، مگر، چوںکہ، چناںچہ استعمال ہوسکتے ہیں اور بہت سی باتیں عالمانہ تأثر کے ساتھ کہی جاسکتی ہیں۔ کہا جاتا ہے، آدھا جواب تو سوال ہی میں پوشیدہ ہوتا ہے، تو سوچنا چاہیے وہ سوال کیسا ہوتا ہے اور اُس کا جواب کیسا ہوتا ہے؟ جہاں تک معاملہ ہے سوال کا تو وہ بہت سیدھا ہے۔ سوال اگر کسی تڑپ، کسی جستجو یا کسی پیاس کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے تو اِس کا پورا احتمال ہے کہ کلید خود اُس کے اندر موجود ہو۔ 

اگر نہ ہو تو کم سے کم اُس میں اشارہ ضرور پایا جائے گا کہ سفر کسی کھونٹ کا ہونا چاہیے۔ اب رہی بات جواب کی، تو اس کا قصہ یہ ہے کہ ہر اچھا جواب ایک تڑپ کے نتیجے میں تو بے شک حاصل ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی دوسری تڑپ کا سامان بھی کردیتا ہے۔ ایک پیاس تو ضرور بجھ جاتی ہے، لیکن یہ نہیں ہوتا کہ پھر اس کے بعد پیاس ہی نہ لگے۔ اگر ایسا ہوتا تو علم کی ترویج اور ادب کا فروغ ممکن ہی نہ تھا۔

مثال کے طور پر اسی سوال کو لیجیے۔ اس کا سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے کہ اگر حالات آدمی (یعنی ادیب) پر اثر انداز ہوتے ہیں تو لامحالہ اُن کا براہِ راست نہیں، بالواسطہ سہی، کچھ نہ کچھ اثر اس کے تخلیقی اظہار پر بھی ضرور ہوگا۔ یہ تو اس سوال کا جواب ہوگیا، لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ اُس کے بعد کچھ اور سوالات پر بھی غور ضروری ہے، مثلاً یہ کہ اِس اثر کی نوعیت کیا ہوگی، آیا یہ کیفیت وقتی ہوگی یا مستقل اور کیا اس اثر کا دائرہ ادیب کے فن پارے میں اُس کی معنوی و فکری صورت تک محدود ہوگا یا یہ اس کے اسلوب اور تکنیک تک بھی جائے گا؟ 

کیا یہ اثر مکمل طور سے شعوری ہوتا ہے یا کہ یہ صورت لاشعوری طور پر بھی پیدا ہوتی ہے؟ اگر لاشعوری طور پر ہوتی ہے تو کیا اسے حالات کا جبر کہا جائے گا؟ کسی ادب پارے کی قدر و قیمت کا تعین کرتے ہوئے کیا حالات کے اثر کو بھی پیشِ نظر رکھنا جانا چاہیے؟ دیکھا آپ نے، ایک جواب سے کتنے سوالات کی شاخیں پھوٹ رہی ہیں۔ یہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی بنیادی سوال دراصل ایک بیج کی طرح ہوتا ہے۔ اس سے پورا ایک پودا جنم لیتا ہے، جس کی کتنی ہی شاخیں ہوتی ہیں اور اُن پر کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ اسی لیے علم و ادب میں سوال کی بہت اہمیت ہوا کرتی ہے۔

اب پھر آئیے اپنے بنیادی سوال کی طرف۔ اس کے پوچھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ان دنوں ہم قومی سطح پر جس سیاسی صورتِ حال سے دوچار ہیں، وہ ایک بحران کا سا نقشہ دکھا رہی ہے۔ اس کے ردِعمل میں سوشل میڈیا پر خاص طور سے کچھ ادیبوں شاعروں نے اپنے تأثرات یا احساسات کو تخلیقی پیرائے میں پیش کیا ہے۔ یہ سب چیزیں کم و بیش ایک ہی رنگ، ایک ہی کیفیت اور ایک ہی مزاج کی حامل نظر آتی ہیں۔ ایسے میں یہ فطری بات ہے کہ ذہن میں کوئی سوال سر اٹھائے۔ ٹھیک ہے، ادیب شاعر بھی وہی عام انسانی قویٰ رکھتے ہیں، اس لیے اُن کا اپنے خارجی حالات کا اثر قبول کرنا کوئی اَن ہونی نہیں ہے۔ 

البتہ یہ بات ضرور اہم ہے کہ بحران کا جو اثر وہ قبول کررہے ہیں، وہ کس نوع کا ہے؟ ادیب فطرتاً مبارزت طلب ہوتا ہے۔ حالات کی ابتری، ماحول کی خرابی یا وقت کی بے مہری اُسے اداس ضرور کرتی ہے، اس کے دل پر بوجھ لازماً ڈالتی ہے، لیکن وہ تادیر اس کے اثر میں نہیں رہتا۔ اُس کی فطرت اسے مدافعت کی قوت فراہم کرتی ہے۔ چناںچہ ابتری کے نقشے میں وہ زندگی کا راستہ تلاش کیے بغیر نہیں رہتا۔ وقت کی بے مہری اُسے وقتی مایوسی سے دوچار تو بے شک کرتی ہے، لیکن وہ مستقل اندھیروں میں رہنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ وہ روشنی کی کرن دریافت کرتا ہے اور اُسے لے کر آگے چل پڑتا ہے۔

چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بحران کے دنوں میں ادب اور ادیب پر مردنی نہیں چھا جاتی، بلکہ ابتری کا موسم اُن کے لیے حیات افزا ثابت ہوتا ہے۔ انھیں مہمیز دیتا ہے اور اُن میں نئی قوت سے زندگی کی رَو دوڑا دیتا ہے۔ ان کے حوصلے کی سطح بلند اور جوش کی عمل داری وسیع ہوجاتی ہے۔ جینے کی خواہش فطری چیز ہے، لیکن صرف جینا ادیب کا مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ بامعنی زندگی کا آرزومند ہوتا ہے— اور بامعنی زندگی سے مراد ہے اپنی نوع کے ساتھ جینا، اپنی تہذیب اور اس کی قدروں کے ساتھ جینا، انفرادی احساس اور اجتماعی شعور کے ساتھ جینا، جبر کی نفی اور اختیار کا سامان کرتے ہوئے جینا، حسن، خیر اور سچائی کے لیے جینا، امنگ، خواب اور جستجو کے ساتھ جینا۔ ادیب کے اندر دانش ور، سپاہی اور صوفی یک جان ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ خواب کو زندگی اور زندگی کو محبت بنانے کا ہنر جانتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ ہم جو ابتر حالات میں ایک ہی طرح کے ملال اور افسردگی کو پھیلتا ہوا دیکھتے ہیں، اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا کچھ مطلب نہیں ہے۔ وقتی اثر کی بات الگ ہے، لیکن وحشت، خوف، الجھن اور مایوسی کا پھیلاؤ اس عہد میں دراصل فیشن بن گیا ہے۔ امنگ اور حوصلہ زندگی کی علامتیں ہیں، جب کہ مایوسی موت کا نشان ہے۔ سچے اور جینوئن ادیب کا سروکار زندگی سے ہوتا ہے، اور غیر مشروط طور پر۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی طرح سوشل میڈیا کے بھی اپنے مسائل اور اپنی مجبوریاں ہیں۔ یہاں چیزیں کسی بھی شعور کے بغیر وائرل ہوجاتی ہیں، جیسے اگلے وقتوں میں اچھا برا دیکھے بغیر فیشن کی لہریں آیا کرتی تھیں۔ ہمارے بعض سادہ دل ادیب شاعر بھی ان لہروں کی زد میں آجاتے ہیں، سوچے سمجھے بغیر۔

حالیہ سیاسی تناظر کو بھی اسی وجہ سے بحران کے طور پر ہمارے یہاں دیکھا اور دکھایا گیا ہے۔ حالات کا تغیر زندگی کی ناگزیر سچائی ہے۔ اس تغیر میں صورتِ حال اچھی ہے یا بری، ادیب شاعر کو یاد رکھنا چاہیے کہ اسے اپنے کام سے غافل نہیں ہونا ہے، بلکہ ابتر حالات میں تو زیادہ کام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں زیادہ بڑا اور زندہ ادب تخلیق ہوتا ہے۔ بشرطے کہ ادیب مایوسی پسند اور اذیت پرست نہ ہو۔ ادیب کی زندگی میں مایوسی جگہ بنا ہی نہیں سکتی، جب تک اُسے اپنے خواب عزیز رہتے ہیں۔

تازہ ترین