اسلام آباد (انصار عباسی) پاکستان انفارمیشن کمیشن کی مداخلت پر، اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ہی کمیشن کو وزارت قانون کے توسط سے آگاہ کر دیا ہے کہ عدالت کے کسی بھی حاضر سروس جج نے کسی بھی سرکاری اتھارٹی میں پلاٹ کے حصول کیلئے درخواست نہیں دی تاہم اسی طرح کی درخواست جب سپریم کورٹ میں بھیجی گئی تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ایک اور کیس میں ایک شہری نے سپریم کورٹ سے سپریم کورٹ کے ملازمین کے حوالے سے معلومات طلب کی تھیں۔ تاہم، پاکستان انفارمیشن کمیشن کے حکم کے باوجود سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا اصرار ہے کہ قانون کے تحت مطلوبہ معلومات فراہم نہیں کی جا سکتیں اور کمیشن کی جانب سے سنائے جانے والے حکم نامے کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ آئین پاکستان کیخلاف بھی ہے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا کہنا ہے کہ صرف وہ معلومات روکی جاتی ہیں جو عدلیہ کی آزاد کو نقصان پہنچاتی ہو، ایسا اسکروٹنی سے بچنے یا پھر شفافیت کیخلاف اقدام کے طور پر نہیں بلکہ عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا جاتا ہے تاکہ انصاف تک رسائی اور قانون کے عمل کے بنیادی حق کو نافذ کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انفارمیشن کمیشن کا دائرہ اختیار سپریم کورٹ تک نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے ہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے انفارمیشن کمیشن سے اس کی حد کے متعلق سوال نہیں کیا اور ان تمام سوالوں کا جواب دیا جو پوچھے گئے تھے۔ تاہم، سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے جواب میں کمیشن کی رائے ہے کہ ایکٹ کے تحت عوامی مفاد میں آئینی یا قانونی حق کو استعمال کرنے سے اعلیٰ عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ کمیشن یہ بھی مانتا ہے کہ عوامی مفاد کے معاملے میں معلومات تک رسائی کیلئے آئینی اختیار استعمال کرنے کو اعلیٰ عدلیہ کی نگرانی نہیں کہا جا سکتا۔ انفارمیشن کمیشن کے آرڈر کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے وزارت قانون کے توسط سے ایک جائزہ پٹیشن دائر کی ہے جس میں انفارمیشن کمیشن سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے کو منسوخ کرے۔ ایک فیصلے میں کمیشن نے وزارت قانون سے کہا تھا کہ وہ مندرجہ ذیل کے متعلق تمام نوٹیفکیشن فراہم کرے: ۱) سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام ججز کو دی جانے والی مراعات اور سہولتیں۔ ۲) سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کو ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی پنشن اور مراعات۔ ۳) حکومت، سرکاری اداروں، فائونڈیشنز، کمپنیوں یا ایجنسیوں کی زیر نگرانی چلنے والی اسکیموں میں سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور جج صاحبان کو الاٹ کردہ پلاٹس۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے انفارمیشن کمیشن کے اس فیصلے کے حوالے سے وزارت قانون کے توسط سے جواب دیا کہ موجودہ چیف جسٹس اور نہ ہی عدالت کے کسی حاضر سروس جج نے کسی سرکاری ادارے، اتھارٹی یا ایجنسی میں کسی پلاٹ کی الاٹمنٹ کی درخواست نہیں دی۔ ان ججز کو کوئی پلاٹ بھی الاٹ نہیں کیا گیا۔ تاہم، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہائی کورٹ کے سابق ججوں کو الاٹ کردہ پلاٹس کی تفصیلات نہیں دیں۔ رجسٹرار کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس اور ججز کی سہولتوں اور مراعات کا معاملہ مجاز اتھارٹی کی جانب سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 205؍ کے تحت صدارتی آرڈیننس کے ماتحت آتا ہے۔ اس ضمن میں تمام صدارتی آرڈیننس سرکاری دستاویزات ہیں جو سرکاری ویب سائٹ اور اس عدالت کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ مذکورہ صدارتی آرڈر میں پنشن اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی مراعات کا بھی ذکر موجود ہے۔ رجسٹرار کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ ججوں کو الاٹ کردہ پلاٹس کے متعلق ضرورت ہو تو انہی سے معلوم کیا جائے۔ تاہم، وزارت قانون کے توسط سے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو گزشتہ پانچ سال کے دوران سپریم کورٹ کے ججز کو الاٹ کردہ پلاٹس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ رجسٹرار نے وزارت کے توسط سے کمیشن کے حکم نامے کے حوالے سے جواب دیا۔ اس حوالے سے جو سوالات پوچھے گئے تھے وہ یہ تھے: ۱) سپریم کورٹ کے اسٹاف کی (کیٹگری وائز) منظور شدہ تعداد، گریڈ ایک تا بائیس میں مختلف عہدوں اور پے اسکیلز پر کون کام کر رہا ہے۔ ۲) سپریم کورٹ میں اسامیوں کی مجموعی تعداد اور اگر کوئی اسامی خالی ہے تو کس تاریخ سے۔ ۳) ایسے ملازمین کی تعداد جو ریگولر نہیں لیکن انہیں روزانہ اجرت پر یا قلیل مدتی یا طویل مدت کنٹریکٹ پر مختلف عہدوں پر بھرتی کیا گیا ہے۔ ۴) یکم جنوری 2017ء سے تخلیق کی گئی اساموں کی تعداد اور ان کی اقسام۔ ۵) مختلف عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کی اسامیوں کی تعداد۔ ۶) سپریم کورٹ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والے معذور افراد کی تعداد۔ ۷) سپریم کورٹ میں مختلف عہدوں پر کام کرنے والے خواجہ سرائوں کی تعداد۔ ۸) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سروس رولز کی منظور شدہ تازہ ترین اور مصدقہ نقل۔ ان تمام سوالوں پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے دائرۂ اختیار پر سوال اٹھاتے ہوئے مطلوبہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ کمیشن کا حکم نامہ غیر قانونی اور عدلیہ کی آزادی کیخلاف ہے۔