یہ نومبر1985 کی بات ہے سری لنکا کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی۔ کراچی ٹیسٹ کے دوران دونوں ٹیموں کا قیام ایئرپورٹ پر واقع ایک ہوٹل میں تھا کیوں کہ پرنس کریم آغا خان کی کراچی آمد کے باعث شہر کے تمام بڑے ہوٹل بک تھے۔ اپنے استاد سید محمد صوفی کے ساتھ ہوٹل میں اب سے36سال پہلے رمیز راجا سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔وہ اس وقت کھلنڈرے نوجوان کی طرح ساتھی روم میٹ محسن کمال کے ساتھ ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔ آج جب میں مڑ کر پیچھے دیکھتا ہوں کہ تو ان سالوں میں پاکستان کرکٹ میں کئی عروج و زوال آئے رمیز راجا بھی اسٹار سے سپر اسٹار اور میگا اسٹار بن گئے۔
انٹر نیشنل کرکٹ چھوڑ نے کے بعد وہ کمنٹری میں آئے اور وائس آف پاکستان کرکٹ کہلانے لگے۔ ان کے بالوں میں بھی اب چاندی چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔رمیز راجا سے اس دوران سینکڑوں ملاقاتیں اور لاتعدا د نشست رہیں لیکن وہ جب بھی ملتے ہیں ان سے احترام کا رشتہ مزید پختہ ہوا ہے حالانکہ ایک دو بار غلط فہمی کی بنا ء پر رمیز راجا سے ہلکی پھلکی تلخی بھی رہی ۔لیکن احترام کا رشتہ آج بھی برقرار ہے۔
آج جب وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بننے کے قریب ہیں اور میں ماضی کے جھرونکوں میں دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو انہوں نے ترقی کی منازل بڑی کامیابی سے طے کی ہیں۔اور مسلسل بلندیوں کی جانب گامزن ہیں۔ایچی سن کالج کے اعلی تعلیم یافتہ کرکٹر بارہ دن بعد پاکستان کرکٹ کے سب سے طاقتور عہدہ پر براجمان ہونے جارہے ہیں۔ رمیز راجا میں اس ذمے داری کو نبھانے کی صلاحیت بھی ہے آئیڈیاز بھی ہیں۔ لیکن پاکستان کرکٹ کو بڑا مقام اور مرتبہ دینے کے لئے انہیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ احسان مانی نے پاکستانی ٹیم تبدیل کی اور پی سی بی انتظامیہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی لیکن وہ توقعات کے مطابق نتائج نہ دے سکے۔
وہ پاکستانی میڈیا کو پسند نہیں کرتے تھے اس لئے میڈیا نے بھی ان پر خوب نشتر برسائے۔انڈین بورڈ کو ہروقت تنقید کرنے والے احسان مانی بھارتی صحافیوں کے لئے ہر وقت دستیاب رہتے تھے لیکن پاکستانی میڈیا ان کے لئے دشمن ملک کا تھا۔شائد یہی وجہ ہے کہ وہ چیئرمین بننے سے قبل ہر ایک کی دسترس میں تھے لیکن چیئرمین بن کر ان میں رعونت دکھائی دی۔رمیز راجا پاکستانی میڈیا میں فرینڈلی تصور ہوتے ہیں اکثر پاکستانی چینلز پر ان کے انٹر ویوز ان کی شہرت میں اضافہ کرتے رہتے تھے اور عام لوگوں تک ان کی آواز آسانی سے پہنچ جاتی تھی۔
کرکٹ کے حلقوں میں اپنے سخت گیر موقف کی وجہ مشہور ہیں۔ہارڈ لائنر بننے کے بعد ان کے لئے کئی سخت کرنا ناممکن نہیں لیکن آسان بھی نہیں ہوگا ۔رمیز راجا پاکستان کرکٹ میں عمر رسیدہ کھلاڑیوں کو لانے کے مخالف رہے ۔شعیب ملک اور محمد حفیظ کی اس قدر مخالفت کی کہ محمد حفیظ نے یہاں تک کہہ دیا کہ رمیز راجا سے بہتر کرکٹ تو میرا بارہ سالہ بیٹا سمجھتا ہے اسی طرح وہ مصباح الحق کی کوچنگ کے انداز پر بھی وہ سخت تنقید کرتے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم جس برانڈ کی کرکٹ ہے یہ برانڈ پاکستان کرکٹ ٹیم کو بلندیوں کی جانب نہیں لے جاسکتا۔
وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد سابق کپتان کا کہنا تھا کہ میں نے وزیر اعظم سے ملاقات کی اور انہیں پاکستان کرکٹ کے حوالے سے ایک روڈ میپ پیش کیا کہ پاکستان کرکٹ کوکیسے آگے لے کر جانا ہے۔ پاکستان کرکٹ کو درپیش مسائل اور مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا ممکنہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اس لیے میں نے انہیں کرکٹ کے معاملات پر چیزوں کے بارے میں اپ ڈیٹ کیا۔ ہماری ایک نتیجہ خیز ملاقات ہوئی ، مجھے خوشی ہے کہ عمران خان نے مجھے فون کیا اور مجھے سنا۔
ان کو مجموعی طور پر کرکٹ کی حالت پر تشویش ہے اور میں نے انہیں اپنی رائے سے آگاہ کیا۔پاکستانی ٹیم کی حالیہ کارکردگی غیر مستقل مزاج رہی ہے۔پاکستان کی مختلف فارمیٹ کی ٹیموں کی رینکنگ اس کی کارکردگی کی عکاسی کرتی ہیں۔پاکستان کا ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچنا مشکل لگتا ہے صرف پاکستان ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ میں سیمی فائنل کھیل سکتا ہے۔ ون ڈے اور ٹیسٹ فارمیٹ میں ان کے لیے پول ا سٹیج سے گزرنا مشکل ہے۔پاکستان کی کرکٹ ہمیشہ سےاتار چڑھاؤ کے لئے شہرت رکھتی ہے اس وقت ایک اور ڈرامائی صورتحال سے دو چار ہوئی جب جمعرات کوپاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین احسان مانی نے وزیراعظم کو مطلع کیا کہ وہ اگلی مدت کے لیے اپنے عہدے میں توسیع نہیں چاہتے۔
یہ صورتحال اس لیے بھی حیران کن تھی کہ احسان مانی نے گذشتہ دنوں دو مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی جس میں انھوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ چیئرمین شپ کی اگلی تین سالہ مدت کے بجائے وہ ایک سال تک ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار ہیں، تاکہ کرکٹ بورڈ کے زیرتکمیل منصوبوں کو مکمل کر سکیں۔ جمعرات کو احسان مانی نے اپنا ارادہ تبدیل کر دیا۔ احسان مانی کے فیصلے میں اچانک تبدیلی کی یہ وجہ سامنے آئی ہے کہ وہ رمیز راجہ کی موجودگی میں کام کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین احسان مانی دوسری مدت میں بھی مکمل اختیارات چاہتے تھے اور انہوں نے رمیز راجا کو وائس چیئرمین بنانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کو خدا حافظ کہہ دیا اور دوبارہ انگلینڈ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وزیر اعظم عمران خان رمیزراجا کو بورڈ آف گورنرز میں لاکر وائس چیئرمین بنانا چاہتے تھے تاکہ دونوں مل کر کام کریں لیکن احسان مانی نے ایسا کرنے سے معذرت کرکے پی سی بی میں کام کرنے سے انکار کردیا۔ گذشتہ تین سال میں انہوں نے مکمل اختیارات کے ساتھ پاکستانی ٹیم انتظامیہ اور پی سی بی انتظامیہ کی ٹیم کو تبدیل کردیا تھا۔ جس میں چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد اور سی ایف او کے بڑے عہدے بھی شامل تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے سابق ٹیسٹ کپتان رمیز راجا اور اسد علی خان کو پاکستان کرکٹ بورڈ کے بورڈ آف گورنرز میں اپنے نمائندوں کے طور پر نامزد کر دیا ہے ۔رمیزکے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اگلے چیئرمین بننے کے امکانات روش ہو گئے ۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کرکٹ بورڈ کے بورڈ آف گورنرز میں رمیز راجااور اسد علی خان کو بطور رکن نامزد کیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اسد علی خان کی یہ دوسری مدت ہوگی۔ وہ اس وقت بھی بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں۔ رمیز راجا اور اسد علی خان کے عہدوں کی میعاد پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کے مطابق تین سال ہو گی۔
ذمے دار ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچ دن قبل جب احسان مانی اور رمیز راجا نے عمران خان سے الگ الگ ملاقاتیں کیں تو عمران خان کو احسان مانی نے بتایا کہ وہ اپنے زیر تکمیل منصوبوں کے بعد چھ ماہ سے ایک سال میں انگلینڈ واپس جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے احسان مانی کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ۔تاہم بعد میں احسان مانی کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی کہ آپ کے ساتھ بورڈ آف گونرز میں رمیز راجا کو رکھا جارہا ہے آئین کے مطابق وائس چیئرمین کا عہدہ موجود ہے رمیز راجا کو وائس چیئرمین بنا دیا جائے گا تاکہ جب احسان مانی ایک سال بعد عہدہ چھوڑیں تو رمیز راجا بقیہ مدت کے لئے چیئرمین بن جائیں۔
احسان مانی نے دو دن سوچ وبچار کے بعد وزیر اعظم آفس کو جواب دیا کہ مجھے اسد علی خان بورڈ آف گورنرز میں چاہیے میں رمیز راجا کے ساتھ کام نہیں کرسکتا۔ جس کے بعد انہوں نے پی سی بی میں کام کرنے سے معذرت کرلی۔ ماضی میں نواز شریف دور میں شہریار خان کے ساتھ نجم سیٹھی کو چیئرمین ایگزیکٹیو کمیٹی بنایا گیا تھا۔دونوں کے درمیان آئے دن اختلافات رہتے تھے جس کی بنیاد پر احسان مانی کو شک تھا کہ رمیز راجا جیسا ہیو ی ویٹ ان کے لئے ہیڈ کوارٹر میں مسائل پیدا کرسکتا ہے اس لئے انہوں نے مزید کام کرنے سے انکار کردیا۔
یہ خبر وزیر اعظم ہاوس پہنچی تو وزیر اعظم کی مشاروت سے رمیز راجا کا تقرر کیا گیا تاکہ وہ چیئرمین بن سکیں۔ پیٹرن انچیف کی حیثیت سے وزیراعظم دو افراد کو حکومتی نمائندے کے طور پر بورڈ آف گورنرز میں نامزد کرتے ہیں جن میں سے ایک کو بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین منتخب کر لیا جاتا ہے۔بورڈ آف گورنرز دس ارکان پر مشتمل ہے جن میں چار آزاد ارکان، دو وزیراعظم کے نامزد کردہ ارکان، ایک چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور تین ایسوسی ایشن کے ارکان شامل ہیں۔ تاہم اس وقت ایسوسی ایشنوں کے تینوں ارکان کی نشستیں خالی ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے انتخاب کے لیے حکومت پاکستان پہلے ہی جسٹس ( ریٹائرڈ ) شیخ عظمت سعید کو الیکشن کمشنر مقرر کیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کر چکی ہے ۔
رمیز راجا کے لئے فوری اکھاڑ پچھاڑ آسان نہیں ہوگا۔ تین ماہ تک اپنی انتظامی ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر فیصلے محتاط انداز میں کریں گے۔تاہم ہیڈ کوچ مصباح الحق،چیف ایگزیکٹیو وسیم خان اور چیف سلیکٹر محمد وسیم کا ستارہ گردش میں آسکتا ہے اور انہیں اپنا عہدہ بچانا مشکل ہوگا۔بورڈ آف گورنرز کے ہر رکن کو چیئرمین کے عہدے پر الیکشن لڑنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم چیئرمین ان دو افراد میں سے ہی کوئی ایک بنتا ہے جسے وزیراعظم نے نامزد کیا ہوتا ہے۔اب سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجاپاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بننے کے لیے فیورٹ قرار دیے جا رہے ہیں۔
رمیز راجا نے متعدد ملکی اور غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ملکی کرکٹ میں بہتری لانا چاہتے ہیں۔رمیز راجا ماضی میں بھی پاکستان کرکٹ بورڈ سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ وہ لیفٹننٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) توقیر ضیا کے دور میں ایڈوائزری کونسل کے ممبر اور پھر چیف ایگزیکٹیو آفیسر رہے تھے تاہم شہریارخان کی جانب سے کمنٹری پر اعتراض کے بعد انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔پاکستان میں چیئرمین پی سی بی کا عہدہ ہائی پروفائل ہے اور ہروقت شہ سرخیوں میں رہتا ہے۔کہتے ہیں کہ ملک میں وزیر اعظم ،آرمی چیف اور صدر پاکستان کے بعد یہ عہدہ ہروقت میڈیا کی ہیڈ لائن میں رہتا ہے۔
گذشتہ پانچ چھ چیئرمینوں کو میڈیا کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے۔رمیز راجا بھی میڈیا کے آدمی ہیں انہیں پتہ ہے کہ خبرکہاں دینی ہے اور کس کی کیا اہمیت ہے۔ عبدالحفیط کاردار، جاوید برکی، ماجد خان اور اعجاز بٹ کے بعد ایک اور کرکٹر چیئرمین کا مسند سنبھالنے والا ہے۔ یہ عہدہ حالیہ دور میں کانٹوں کی سیج کہلاتا رہا ہے ، فائیو اسٹار لگژری والا یہ عہدہ اعزازی ضرور ہے لیکن اگر رمیز راجا اچھے کام کر گئے تو تاریخ انہیں ایک کامیاب کرکٹر،کامیاب ترین کمنٹیٹر کے ساتھ کامیاب ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے یاد رکھے گی لیکن ریمبو کے لئے یہ مشن ایمبوسیبل نہیں ہوگا۔