بھارت لاکھ ہائی ٹیک طیارے خریدلے، مگر راشد منہاس شہید، ایم ایم عالم، سرفراز رفیقی شہید، یونس حسین شہید اور سجّاد حیدر جیسے دشمن پر جَھپٹنے والے جری شاہین اور دلیر شہباز کہاں سے لائے گا؟ پاک فضائیہ نے اپنے اسٹاف کی پیشہ ورانہ تربیت روزِ اول ہی سے انتہائی بلند معیار پر رکھی ہے۔ لہٰذا، جب ستمبر 65 ء کی جنگ کا مرحلہ آیا، تو اِن شاہینوں نے دلیری، شجاعت اور جرأت کی ایسی درخشاں داستانیں رقم کیں، جنہیں قوم ہمیشہ فخر سے بیان کرتی رہے گی۔
سرفراز رفیقی شہید آسمانِ شجاعت کے وہ ماہِ منیر ہیں، جو18 جولائی 1935 ء کو راج شاہی(سابق مشرقی پاکستان) میں طلوع ہوئے۔ والد ایک تعلیم یافتہ شخص اور ایک انشورنس کمپنی میں ملازم تھے، جو تقسیمِ ہند کے بعد مغربی پاکستان آگئے۔ سرفراز رفیقی گورنمنٹ ہائی اسکول، ملتان میں نہم جماعت کے طالبِ علم تھے، جب فرانس میں ہونے والی اسکائوٹ جمبوری میں شرکت کے لیے منتخب ہوئے۔ابھی فرانس ہی میں تھے کہ پاکستان کی آزادی کا اعلان ہوگیا، جس پر اُنھوں نے اپنے دیگر تین اسکائوٹ ساتھیوں کے ساتھ گرل گائیڈز کے ہاتھوں سِلا ہوا سبز ہلالی پرچم فرانس کی سڑکوں پر لہرا دیا۔
1965 ء کے آغاز ہی سے پاک، بھارت سرحد پر تنائو شروع ہوچُکا تھا، جس پر پاک فضائیہ کی گہری نظر تھی۔ شاہین ہمہ وقت تیار اور اپنے جوہر دِکھانے کے لیے بے تاب تھے۔ایئر چیف مارشل، نور خان (مرحوم) کا بیان ہے کہ’’مجھے اپنے ہوا بازوں کو جنگ سے دُور رکھنے میں دشواری پیش آرہی تھی۔‘‘ یہ جملہ اُن کے اپنے جذبات کا بھی عکّاس ہے۔ یکم ستمبر 1965 ء کو میجر جنرل، اختر ملک چھمب کے محاذ پر سرحد عبور کرکے جوڑیاں اور اکھنور کی جانب پندرہ میل تک آگے بڑھ چُکے تھے۔
پاک فضائیہ کے دو ایف 86 سیبر اور ایک اسٹار فائٹرF-104 ممکنہ فضائی حملوں کے پیشِ نظر فضا میں محوِ پرواز تھے، مگر سہہ پہر تک کسی بھی قسم کی فضائی مزاحمت نہ ہوئی، تو ایئرمارشل نور خان نے، جن کی بہادری مشہور تھی،گجرات سے بری فوج کا ایک چھوٹا طیارہ لے کر خود محاذِ جنگ پر پہنچ گئے۔ وہ بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان کی برّی فوج جس طرح دشمن سے برسرِ پیکار ہے، بھارتی فضائیہ اُس کی پیش قدمی روکنے کے لیے ضرور جنگ میں کودے گی۔
پانچ بج کر بیس منٹ پر بھارتی طیارے فضا میں پہنچ گئے، پھر آنِ واحد میں پاک فضائیہ کے دونوں سیبر دشمن پر جَھپٹے۔ ایک طیارے میں اسکواڈرن لیڈر، سرفراز رفیقی اور دوسرے میں فلائٹ لیفٹیننٹ، امتیاز بھٹّی تھے۔دشمن کی نااہلی کی انتہا یہ تھی کہ اُس کے جہاز اپنی ہی فوج کو نشانہ بنا رہے تھے۔ بھارتی میجر جنرل، جی ایس سندھو اپنی کتاب ’’ہسٹری آف انڈین کیولری‘‘ میں رقم طراز ہیں،’’بھارتی طیارے اپنی برّی فوج کی مدد کے لیے روانہ ہوئے اور اپنی ہی فوج کے ایک یونٹ 20 لانسرز کے ٹینکس پر حملہ آور ہوگئے، جس سے تین ٹینک، اکلوتی ریکوری گاڑی اور اسلحہ فراہم کرنے والی گاڑی تباہ ہوگئی۔
زمینی فائر سے ایک بھارتی ویمپائر تباہ ہوا، جسے فلائنگ آفیسر، پاتھک اُڑا رہا تھا۔‘‘ اِسی دَوران پاک فضائیہ کے شہباز میدانِ جنگ میں پہنچ چُکے تھے۔ جیسے ہی رفیقی کی بھارتی طیاروں پر نظر پڑی، دو ویمپائر طیاروں کو نشانہ لے کر مار گرایا۔ تیسرا طیارہ امتیاز بھٹّی نے گرایا۔ اِس طرح بھارت کی اپنی فوج کا نشانہ بننے والے پاتھک کے طیارے کے علاوہ ،فلائٹ لیفٹیننٹ ،اے کے بھگ واگر، فلائٹ لیفٹیننٹ ایم وی جوشی اور فلائٹ لیفٹیننٹ ایس بھرواج اپنے اپنے ویمپائرز کے ساتھ زمیں بوس ہو گئے۔
ان چار طیاروں کی تباہی کے بعد بھارت نے 130 ویمپائر لڑاکا طیارے اور 50 سے زاید اوریگن طیاروں کو فوری طور پر محاذِ جنگ سے ہٹا لیا۔ دوسری طرف، پاک فضائیہ کے سربراہ، ایئر مارشل نورخان اپنے چھوٹے طیارے میں معائنہ کرنے سرگودھا پہنچے، تو اُنھیں اِس شان دار فتح کی خبردی گئی۔ پاک فضائیہ کی اِس کام یابی نے پاک آرمی کے حوصلے بھی آسمان تک بلند کردیے۔ بریگیڈیئر امجد چوہدری نے پاک فضائیہ کو اظہارِ تشکّر کے لیے خط لکھا، ’’چھمب میں آپ کی پہلی کارگزاری نے ثابت کردیا کہ دشمن کی فضائیہ کی طرف سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں۔ اس طرح آپ نے اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔‘‘
6ستمبر1965 ء کی صبح دشمن نے پاکستان پر حملہ کیا، تو پاک فضائیہ نے بھی غروبِ آفتاب کے وقت دشمن کے ہوائی اڈّوں کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اسکواڈرن لیڈر، رفیقی کی قیادت میں تین طیاروں کا دستہ سرگودھا سے بھارتی ہوائی اڈّے، ہلواڑہ پر حملے کے لیے روانہ ہوا۔ رفیقی کے ہم راہ نمبر2 فلائٹ لیفٹیننٹ، سیسل چوہدری اور نمبر3فلائٹ لیفٹیننٹ، یونس حسین(پاک فضائیہ کے سابق سربراہ، ایئر چیف مارشل مصحف علی میر کے ماموں) تھے۔
یہ دستہ شام کی ڈھلتی روشنی میں سرحد عبور کررہا تھا کہ واپس آتے ہوئے ایم ایم عالم نے فضا میں موجود دشمن کے بے شمار طیاروں کی اطلاع دی، مگر شاہین صفت سرفروشوں کی یہ جماعت پھر بھی ہلواڑہ جا ہی پہنچی۔ بھارتی طیارے فضا میں شہد کی مکھیوں کی طرح اُڑ رہے تھے۔ دشمن کے کم از کم دس لڑاکا ہنٹر طیارے ہمارے تین سیبر طیاروں پر ٹوٹ پڑے۔ رفیقی نے اپنے جاں بازوں کو پیٹرول کی فالتو ٹینکیاں گرانے کو کہا۔ یونس سے فنی خرابی کی وجہ سے ٹینکیاں نہ گر سکیں، جس سے جہاز کی فوری حرکت متاثر ہو رہی تھی۔ رفیقی نے دو ہنٹر کو دیکھا اور اُن کے پیچھے پہنچ کر اُن کے قائد کو نشانے پر لیا، جس سے وہ فضا ہی میں پھٹ گیا۔
یونس اور سیسل بھی اپنے اپنے شکار پر لپکے۔ سیسل نے ایک ہنٹر طیارہ مار گرایا اور دوسرا بھاگ گیا۔یونس کو پینترے بدلنے میں مشکل درپیش آرہی تھی، مگر اِتنے بُرے حالات کے باوجود ایک طیارے کو مار ہی گرایا۔ اِسی اثنا دشمن کے ایک طیارے نے عقب سے اُن کی ٹینکیوں کو نشانہ بنایا، جس پر فلائٹ لیفٹیننٹ، یونس جامِ شہادت نوش کرگئے۔ رفیقی اس معرکے میں جب عدو سے پنجہ آزما تھے اور دشمن کا ایک طیارہ اُن کے ہدف پر آچُکا تھا، تو اُنہیں معلوم ہوا کہ اُن کی گنز جام ہو چُکی ہیں، مگر انھوں نے راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے کمانڈ اپنے نمبر2 فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چوہدری کو سونپ دی اور خود سیسل کو عقب سے تحفّظ فراہم کرنے کے لیے اُن کے پیچھے چلے گئے۔
جب سیسل دشمن کے جہاز گرا رہے تھے، تو دشمن نے رفیقی کے طیارے کو نشانہ بنا ڈالا اور وہ بھی شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوگئے۔تاہم، سیسل چوہدری دشمن کے نرغے سے بچ کر واپس مُلک پہنچنے میں کام یاب رہے۔ اسکواڈرن لیڈر، سرفراز رفیقی کی بے مثال جرأت پر حکومتِ پاکستان نے اُنہیں ہلالِ جرأت اور ستارۂ جرأت سے نوازا۔ اُن کے والدین کو اعلیٰ درجے کی177 ایکڑ زرعی اراضی دی گئی، جو اُنہوں نے ایک ٹرسٹ بنا کر پاک فضائیہ کے درجہ چہارم کے ملازم کے نام پر وقف کردی۔
فلائٹ لیفٹیننٹ، یونس حسین فضائی حربی معرکوں میں ایک نڈر، دلیر اور جارح پائلٹ کی شہرت رکھتے تھے۔اُنھوں نے ایک معرکے میں تنہا دشمن کے چھے ہنٹر طیاروں کا مقابلہ کیا اور اُن میں سے دو کو مار بھی گرایا۔گو کہ اِس مقابلے میں اُن کے طیارے کو بھی نقصان پہنچا، لیکن وہ بحفاظت اپنے بیس پر پہنچنے میں کام یاب رہے۔ چھے ستمبر کے ہلواڑہ ایئر فیلڈ کے معرکے میں جامِ شہادت نوش فرمایا، تو اُن کی اِس بے مثال بہادری، پیشہ ورانہ مہارت اور فرض کی ادائی کے اعتراف میں اُنھیں ستارۂ جرأت سے نوازا گیا۔
بھارتیوں کو اپنے ہوائی بیڑے اور بکتر بند ڈویژن پر بہت گھمنڈ تھا۔اُن کا گمان تھا کہ اُن کے پاس اُس وقت کے لحاظ سے جدید ترین طیارے موجود ہیں۔ اُنھیں سب سے زیادہ ناز روس کے بنے ہوئے مِگ-21 لڑاکا طیاروں پر تھا، جنہوں نے کوریا کی جنگ میں امریکی ہوائی بیڑے کے بھی چَھکّے چُھڑا دیے تھے۔ بھارت کے مقابلے میں پاک فضائیہ کی حیثیت ایک فلائنگ کلب سے زیادہ نہ تھی، جس کے پاس فضا میں لڑنے کے لیے پرانی طرز کے سیبر طیارے تھے اور وہ بھی بھارت کے مقابلے میں ایک چوتھائی۔
جنگ شروع ہوتے ہی ہر شاہین کو سورۃ الانفال پڑھنے کو کہا گیا،جس میں ارشادِ ربُّ العزّت ہے کہ’’اگر تم میں سے بیس آدمی ثابت قدم رہیں گے، تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے ایسے ایک سو آدمی ہوں گے، تو ایک ہزار کفّار پر غالب رہیں گے۔ بے شک، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘یکم ستمبر کو چھمب جوڑیاں محاذ پر بھارت نے اپنی ہوائی قوّت کا مظاہرہ کیا اور چارمسٹیئر، دو کینبرا پاک فوج کی پیش قدمی روکنے کے لیے بھیجے۔ اِدھر سے صرف دو عقاب مقابلے کے لیے بھیجے گئے۔
پھر چشمِ فلک اور دونوں طرف سے لڑتی زمینی فوجوں نے دیکھا کہ دو سیبر طیارے دشمن کے مقابل اِس طرح ڈٹے کہ چار مسٹیئر طیاروں کو تباہ کردیا اور دونوں کینبرا ایک گولی چلائے بغیر دُم دبا کر بھاگ گئے۔ دوسرے روز ایم ایم عالم اور دوسرے شاہینوں نے بھارتیوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔3 ستمبر کو دشمن کے چھے جیٹ طیارے چھمب جوڑیاں کے محاذ پر آئے، تو ہمارے دو اسٹار فائٹر F-104 بھی وہاں پہنچ گئے، جس پر بھارتی بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرار ہوگئے، مگر اُن میں سے ایک کو گھیر کر پسرور میں اُتار لیا گیا۔ یہ لڑاکا اسکواڈرن کے فائٹر، کمانڈر اسکواڈرن لیڈر، برج پال سنگھ سکند تھے۔ سکند کو پانچ ماہ قید میں رکھ کر چھوڑدیا گیا اور وہ بعد میں بھارتی فضائیہ میں ایئر مارشل کے عُہدے تک پہنچے۔F-104 اسٹار فائٹر کے، جس کے آگے سکند نے سرنڈر کیا، ہوا باز فلائٹ لیفٹیننٹ حکیم اللہ تھے، جو تقریباً دو دہائی بعد پاک فضائیہ کے سربراہ بنے۔
چھے ستمبر کا دن پاک فضائیہ کے لیے ایک کڑی آزمائش کا دن تھا۔ دونوں ممالک میں باقاعدہ جنگ شروع ہوچُکی تھی۔ پاک فضائیہ برق رفتاری سے لاہور پہنچ گئی۔ اُسی شام ایک پرواز آدم پور بھیجی گئی، جو تین بھارتی طیاروں کو تباہ کر آئی۔ اس کے ساتھ ہی جام نگر کے ہوائی اڈّے پر بم باری شروع کردی گئی، جس سے وہ ملبے کاڈھیر بن گیا، لیکن اسکواڈرن لیڈر، شبیر عالم صدیقی اور اُن کے نیوی گیٹر، اسکواڈرن لیڈر، اسلم قریشی واپس نہیں آسکے۔ اگلے روزB-57 بم بار طیاروں نے آدم پور میں کام یاب کارروائی کی۔
بم باروں کی ایک اور پرواز پٹھان کوٹ بھیجی گئی، جس نے رہی سہی کسر پوری کردی۔یوں انڈین ایئر فورس پہلے ہی روز بائیس لڑاکا طیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ بزدل دشمن نے پنڈی اور کراچی پر ہوائی حملوں کی کوشش کی، مگر بُری طرح ناکام رہا۔ 7 ستمبر کو انڈین ایئر فورس نے مشرقی پاکستان میں ڈھاکا، جیسور اور چٹا گانگ پر راکٹ اور بم برسائے، لیکن اُسے کوئی خاص کام یابی نہیں ملی، جب کہ وہاں پاک فضائیہ کا صرف ایک اسکواڈرن تھا۔ جیسے ہی بھارتی طیارے واپس لَوٹے، شاہین کلائی کنڈہ کے ہوائی اڈّے پر جا کر جَھپٹے، جہاں بھارتی طیارے ایک ترتیب کے ساتھ اُن کا لقمہ بننے کے لیے تیار کھڑے تھے۔
اس کارروائی میں ہمارا ایک فلائنگ آفیسر، افضال شہید ہوا، جب کہ دشمن کو دو ہنٹر اور14 کینبرا طیاروں کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔7 ستمبر کو بھارتیوں نے سرگودھا پر بم باری کے لیے بار بار اپنے طیاروں کو بھیجا۔ اُن میں سے چار مسٹیئر تو زمینی توپچیوں نے اُڑا دیے اور ایک کوF-104اسٹار فائٹر نے زمین بوس کردیا، جب کہ اِس معرکے میں اسکواڈرن لیڈر، ایم ایم عالم نے صرف ایک منٹ میں پانچ طیارے گرا کر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔ اُس روز کے بعد بھارتیوں نے دن کی روشنی میں سرگودھا پر حملے کی کوشش ہی چھوڑ دی۔پاک فضائیہ نے فاضلکا سیکٹر، چوِنڈہ سیال کوٹ اور لاہور سیکٹر میں بھی برّی فوج کی امداد کے لیے جہاز بھیجے، جنہوں نے کئی ٹینکس اور گاڑیاں تباہ کیں۔ مقبوضہ کشمیر کے ہوائی اڈّے پر حملہ کرکے تین مال بردار جہاز آگ کی نذر کردیے گئے۔ پہلے دو دنوں میں بھارت60 طیاروں سے محروم ہوگیا۔
8ستمبر کو بھارت نے بکتر بند ڈویژن کے ساتھ چونڈہ سیال کوٹ پر حملہ کیا، تو اُس روز بیس پروازیں اُس محاذ کے لیے اُڑائی گئیں، جنہوں نے جانوں کی پروا کیے بغیر درختوں کی بلندیوں تک نیچا اُڑ اُڑ کر بھارتی ٹینکس اور گاڑیوں کو نشانہ بنایا، ورنہ دشمن کے اس لوہے اور آگ کے خطرناک سیلاب کو روکنا آسان نہ تھا۔16 ستمبر تک بھارت کی حالت یہ ہوگئی کہ دن کے وقت اُس کا کوئی طیارہ نظر نہیں آتا تھا، یہاں تک کہ شاہینوں کو اپنا شکار تلاش کرنے میں بڑی محنت کرنی پڑتی۔
ایم ایم عالم کو دریائے بیاس سے کافی فاصلے پر جب دو ہنٹر نظر آئے، تو اُنہوں نے بھارتی فضائوں میں داخل ہوکر اُنہیں تباہ کیا۔ امرتسر کے قریب فلائنگ آفیسر، یوسف علی خان نے ایک جیٹ مار گرایا۔19 ستمبر کو چونڈہ کے محاذ پر جیٹ گرا کر اُس کے پائلٹ، مہادیو کو گرفتار کر لیا گیا۔21 ستمبر کو ایک اور ہواباز موہن لال کو جہاز گرا کر پکڑا گیا۔جنگ کے آخری روز کھیم کرن کی فضا میں بھارتی طیارہ تباہ کیا گیا اور پائلٹ کو قیدی بنالیا گیا، جو وہاں کے پہلے کمانڈر انچیف ،کری اپا کا بیٹا تھا۔
ایئر مارشل نور خان کہا کرتے تھے،’’ بھارت سے جنگ کے بعد پاک فضائیہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگئی۔‘‘اِس جنگ میں دشمن کے 110 طیارے تباہ ہوئے۔ اِن میں بھارت کے وہ25 طیارے شامل نہیں، جو ایک امریکی نامہ نگار کے مطابق انبالہ کے ہوائی اڈّے پر تباہ کیے گئے تھے۔اِس کے علاوہ، شاہینوں نے 150 ٹینکس،600 فوجی گاڑیاں، گولہ بارود سے بھری چار ٹرینز اور ایک سو کے قریب توپیں تباہ کیں۔7 بھارتی ہوا بازوں کو جنگی قیدی بنایا گیا اور ایک جہاز کو صحیح سلامت اُتار کر قبضے میں لیا گیا، جو اب فیصل میوزیم، کراچی کی زینت ہے۔ اس کے مقابلے میں پاک فضائیہ کے 14 طیارے ضائع ہوئے۔