وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اگر طالبان اپنے بیانات کی پاسداری کرتے ہیں تو اُن پر اعتماد کیا جائے۔
برطانوی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان طالبان کو بین الاقوامی قوانین اور روایات کا احترام یقینی بنانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر طالبان بیانات کی پاس داری کرتے ہیں تو اُن پر اعتماد کیا جائے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ عجلت میں انخلا افغان عوام کو تنہا چھوڑنے کے برابر ہے، یہ ہی وہ غلطی تھی جو 90 کی دہائی میں کی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ضرورت ہے کہ عالمی برادری اس غلطی کو نہ دہرائے اور افغانوں کو تنہا نہ چھوڑے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان مسلسل کہہ رہا تھا کہ امن عمل، مذاکرات اور انخلا کا عمل ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ذمہ دارانہ انخلاء کا مطالبہ کر رہے تھے تاکہ عدم تحفظ کا احساس پیدا نہ ہو۔
وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ خواہش تھی کہ انخلا کے ساتھ ساتھ افغان عوام کے ساتھ انگیجمنٹ جاری رکھی جائے، عجلت میں انخلا افغان عوام کو تنہا چھوڑنے کے مترادف ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ضرورت ہے کہ عالمی برادری اس غلطی کو نہ دہرائے اور افغانوں کو تنہا نہ چھوڑے، اگر طالبان بیانات کی عملی طور پر پاسداری کرتے ہیں تو ان پر اعتماد کیا جائے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغانوں کی انسانی و مالی معاونت یقینی بنائی جائے تاکہ وہ اقتصادی طور پر دیوالیہ نہ ہوپائیں، مت بھولیں لاکھوں افغان مہاجرین پچھلی چار دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر بے بنیاد الزامات کا سلسلہ بہت عرصے سے جاری ہے، الزامات لگانے والوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ طالبان پہلے سے افغانستان میں موجود تھے۔
وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ طالبان قیادت دوحہ میں مذاکرات کر رہی تھی، افغانستان کے 40 سے 45 فیصد علاقے پر طالبان کی عملداری پہلے سے تھی۔