کابل فتح کرنے کے بعد طالبان مخالف حلقوں میں یہ بحث چھڑی کہ کیا وہ بدل گئے ہیں اور کیا امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک کے گروہ، جسے عرف عام میں بین الاقوامی برادری کہا جاتا ہے، کو طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے؟ کابل سے بھاگ جانے والے افغانی جن میں خاص طور پر ان افراد کی تعداد زیادہ ہے جو اشرف غنی حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے اپنے انٹرویوز اور سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعےبار بار دنیا کو باور کرا رہے ہیں کہ طالبان نہ بدلے ہیں اور نہ وہ بدل سکتے ہیں اس لئے دنیا، جس سے ان کی مراد امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ہیں، کو ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق خاص کر سیاسی یا مالی معاملات استوار نہیں کرنے چاہئیں۔ ان کے مطابق طالبان اب بھی شدت پسند ہیں جن کی وجہ سے خواتین، اقلیتیں، جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ وہ طالبان کی جانب سے اب تک دیئے جانے والے مصالحتی بیانات اور اقدامات کو ڈھونگ قرار دیتے ہیں جو بقول ان کے صرف دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے کئے جارہے ہیں۔ طالبان مخالف اس بیانیے کی حمایت میں سوشل میڈیا پر مبینہ مظالم کی سینکڑوں کہانیاں بیان کی جارہی ہیں کہ کس طرح طالبان کابل یا دیگر شہروں میں گزشتہ حکومت میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین بشمول خواتین کو قتل یا اغواکررہے ہیں۔ اگرچہ طالبان کے اپنے مخالفین کو قتل کرنے کے واقعات میں کچھ سچائی ہے مگر اس طرح کی پھیلائی جانے والی خبروں میں مبینہ مظلوموں کے کوائف درج نہیں ہوتے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ طالبان کی ماضی کی کارکردگی پر خود طالبان بھی شرمندہ ہیں اور برملا اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ ان سے کافی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حالیہ مصالحانہ اعلانات یا اقدامات کے باوجود وہ بالکل بھی بدلے نہ ہوں مگر جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہ نہ صرف بدل گئی ہے بلکہ ماضی قریب میں انہیں دشمن اور دہشت گرد کہنے والے اب طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات کی امید میں ان کے ساتھ معاملات طے کررہے ہیں۔ اس کا عندیہ سب سے پہلے برطانوی فوج کے سربراہ جنرل نک کارٹر نے دیا جب انھوں نے دو ہفتہ قبل ایک انٹرویو میں طالبان کو دشمن قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ طالبان ایک وسیع الاتحاد حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ انھوں نے طالبان کو ایسے جوانوں کا گروپ قرار دیا جو افغان قبائل کے معاشرتی آئین اور ضابطہ اخلاق ’پشتون ولی‘ کو مدنظر رکھ کر عزت سے جیتے ہیں۔ جب ان سے خواتین کے حقوق کے حوالے سے طالبان کے سابقہ دور حکومت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ زمینی حقائق کی روشنی میں طالبان کی باتوں کو اچھی طرح سے سنا جائے۔
انخلا کے آخری دنوں میں امریکی افواج اور طالبان مشترکہ طور پر کابل ائیرپورٹ پر نظر آئے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے رہے۔ ائیرپورٹ پر اسلامک اسٹیٹ خراسان ولایت کی جانب سے خود کش حملے کے بعد امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکینزی نے طالبان کے ساتھ انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے کا اعتراف کرتے ہوئے اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی کے خلاف طالبان کی کوششوں کا اعتراف کیا۔ کابل دھماکوں سے پہلے افغان دارالحکومت میں طالبان کمانڈر ملا عبدالغنی برادر اور سی آئی اے کے سربراہ کی ملاقات سے بھی خطے میں مستقبل کے خدوخال کا عندیہ ملتا ہے۔ طالبان کے تئیں بدلتے ہوئے حالات کا بلاواسطہ اعتراف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی حالیہ میٹنگ سے بھی ملتا ہے۔ کابل خودکش دھماکوں کے بعد بھارت کی سربراہی میں سیکورٹی کونسل نے گزشتہ اتوار کو جو بیان جاری کیا اس میں انھوں نے دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے طالبان کا نام لینے سے احتراز کیا حالانکہ دو ہفتے قبل جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تھا تو اسوقت سیکورٹی کونسل کے بیان میں طالبان کا نام لے کر انہیں دہشت گردی کی حمایت سے باز رہنے کو کہا گیا تھا۔ طالبان بدلے ہوں یا نہ ہوں 20 سال پہلے ان کے خلاف حالات کی جو روش تھی وہ اب یکسر بدل گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمسایہ ممالک سے لے کر عالمی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے حصول میں نئی صورتحال کیلئے اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوششوں میں لگ گئی ہیں۔ طالبان کے پرانے مخالفین ایران اور روس پہلے ہی ان سے مل کر کام کرنےکی سعی میں لگ گئے ہیں اور اب بھارت نے بھی سفارتی رابطہ بحال کردیا ہے-چین کے خصوصی سفارت کار برائے افغانستان یواے شیویان نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اس سے قطع نظر کہ کیا طالبان واقعی بدل گئے ہیں وہ ایک انتہائی اہم سیاسی اور فوجی قوت بن گئے ہیں‘‘۔